یاد رہے کہ صدیق وہ ہوتاہے جس کو سچائیوں کا کامل طور پر علم بھی ہو اور پھر کامل اور طبعی طورپر اُن پر قائم بھی ہو۔ مثلاً اُس کو اُن معارف کی حقیقت معلوم ہوکہ وحدانیّت باری تعالیٰ کیا شَے ہے اور اُس کی اطاعت کیا شَے اور محبت باری عَزَّاِسمہٗ کیا شَے اور شرک سے کس مرتبہ اخلاص پر مَخلصی حاصل ہوسکتی ہے اورعبودیّت کی کیا حقیقت ہے اور اخلاص کی حقیقت کیا اور توبہ کی حقیقت کیا اور صبر اور توکل اور رضا اور محویّت اور فنا اور صدق اور وفا اور تواضع اور سخا اور ابتہال اور دعا اور عفو اور حیا اور دیانت اور امانت اور اتقا وغیرہ اخلاقِ فاضلہ کی کیاکیا حقیقتیں ہیں۔ پھر ماسوا اِس کے اِن تمام صفاتِ فاضلہ پر قائم بھی ہو*۔اور تیسرا کماؔ ل جو اکابر اولیاء کو دیا جاتا ہے مرتبۂ شہادت ہے اور مرتبۂ شہادت سے وہ مرتبہ مُراد ہے جبکہ انسان اپنی قوتِ ایمان سے اِس قدر اپنے خدا اور روزِ جزا پر یقین کرلیتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ کو اپنی آنکھ سے دیکھنے لگتا ہے۔ تب اس یقین کی برکت سے اعمال صالحہ کی مرارت اور تلخی * جن عظیم الشان لوگوں کو بڑے بڑے عظیم ذمہ داریوں کے کام ملتے ہیں اور بعض اوقات خدا تعالیٰ سے عِلم پاکر خضر کی طرح ایسے کام بھی اُن کو کرنے پڑتے ہیں جن سے ایک کوتہ بین شخص کی نظر میں وہ بعض اخلاقی حالتوں میں یا معاشرت کے طریقوں میں قابلِ ملامت ٹھہرتے ہیں۔ اُن کے دشمنوں کی باتوں کی طرف دیکھ کر ہرگز بدظن نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ اندھے دشمنوں نے کسی نبی اور رسول کو اپنی نکتہ چینی سے مستثنیٰ نہیں رکھا۔ مثلاً وہ موسیٰ مردِ خدا جس کی نسبت تورؔ یت میں آیا ہے کہ وہ زمین کے تمام باشندوں سے زیادہ ترحلیم او ر امین ہے مخالفوں نے اُن پر یہ اعتراض کئے ہیں کہ گویا وہ نعو ذ باللہ نہایت درجہ کا سخت دل اورخونی انسان تھا جس کے حکم سے کئی لاکھ شیر خوار بچے قتل کئے گئے اور ایسا ہی کہتے ہیں کہ وہ نہ دیانت اورامانت سے حصّہ رکھتا تھا اور نہ عہد کا پابند تھا کیونکہ اُس کے ایماء سے بنی اسرائیل نے کئی لاکھ روپیہ کے سونے او ر چاندی کے برتن اور قیمتی زیور بنی اسرائیل۱؂ سے بطور مستعار لئے اور ۱؂ اصل میں ایسا ہی ہے ۔ دراصل لفظ مصریوں ہونا چاہئے۔ (مصحح