لہ القبولیۃ فی الأرض فیثنی علیہ کل من کان من الصالحین۔وہذا ہو کمال حقیقۃ العبودیۃ، ومآل أمر النفوس المطہرۃ، ولا یعرفہا إلَّا الذی أُعطی حظًّا من المعرفۃ۔وہذا ہو غایۃ نوع الإنسان، وکمالہ المطلوب فی تعبّد الرحمٰن۔وہذا ہو الذی تنتہی إلیہ آمال الأولیاء ، ویختتم علیہ سلوک الطلباء ، وتستکمل بہا العنایۃ نفوس الأصفیاء۔ وہذا ہو لُبُّ أعباء الشریعۃ، ونتیجۃ المجاہدات فی الملّۃ، وسرّ ما نزل بہ الناموس من الحضرۃ علی قلب خیرالبریّۃ، علیہ أنواع السلام والصلاۃ قبولیت زمین پر پھیلائی جاتی ہے۔ پس ہر ایک جو نیک طینت ہے ا س کی تعریف کرتا ہے اور یہی عبودیت کی حقیقت کا کمال اور پاک نفسوں کا انجام کار ہے اور اس مقام کو کوئی شخص بجز صاحب معرفت کے نہیں پہچانتا اور یہی نوعِ انسان کی غایت اور عبادتوں کا کمال مطلوب ہے۔ یہی وہ امر ہے جو اولیاء کی امیدوں کا منتہٰی اور طالبوں کے سلوک کے ختم ہونے کی جگہ ہے اور اسی کے ساتھ عنایت الٰہی برگزیدوں کے نفوس کو مکمل کرتی ہے اور یہی شریعت کے بوجھوں کا مغز اور مجاہداتِ دینی کا نتیجہ ہے اور یہ ان امور کا بھید ہے جو حضرت جبرائیل علیہ السلام آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف لائے۔ پس اس نبی پر سلام مثل ایں کس در گیتی ستودہ ؔ ؔ و قبولی برائے او در دلہا ریختہ شود۔ پس ہر نیک نہاد اور امی ستاید۔ کمال حقیقۂ بند گی و سر انجام کار پاک نفسان ہمین است۔ و غیر اہل معرفت ایں مقام رانمی شناسد و ہمین غایت نوع انسان و کمال مطلوب عبادات ہمین است۔ و انجام امید ہائے اولیا ء ہمین و آخرین مقامے است کہ سلوک جو یند گان حق بد انجا منتہی بشود۔ و بہمیں عنایت الٰہی تکمیل نفوس بر گزیدہ ہارا نماید۔ و مغز و راز تکلیفاتِ شرعیہ ہمین و نتیجۂ مجاہدات دینیہ ہمین است و ہمیں سر آن ہمہ امور است کہ حضرتِ ناموسِ اکبر از حضرتِ الوہیت در پیش بر گزیدۂ آفرینش (صلی اللہ علیہ وسلم ) آورد