الاعتذار، فلبیت الصائت کطائعین۔ وقد بلغکم الأحادیث من المحدّثین، وسمعتم أن المسیح الموعود والمہدی الموعود یخرج عند غلبۃ الصلیب، ویتلافی ما سلف من الإضلال والتخریب، ویہدی قومًا مہتدین۔ والذین منعتہم الحمیّۃ والنفس الأبیۃ من القبول، فیصیرون بحربۃ الإؔ فحام کالمقتول۔ وأمّا نزولہ إلی الأعداء فأشیر فیہ إلی أنہ رجل من الفقراء ، لا یکون لہ دروع وأسلحۃ، ولا عساکر و مملکۃ، ولا تنبری لہ ملحمۃ، بل تکون لہ سلطنۃ فی السماء، وحربۃ من الدعاء۔ فقد رأیتم بأعینکم أن دین الصلیب قد علا۔
حدیثیں پہنچ چکی ہیں اور تم سن چکے ہو کہ مسیح موعود اور مہدی موعود صلیب کے غلبہ کے وقت ظاہر ہو گا اور صلیبی خرابیوں اور گمراہیوں کی تلافی کرے گا اور مستعد لوگوں کو ہدایت دے گا اور جن کو ان کے نفسانی ننگ اور سر کشی قبو ل کرنے سے روکے گی وہ اتمام حجت کے حربہ سے مقتول کی طرح ہو جائیں گے۔ اور مسیح میں نزول کا لفظ اس لئے استعمال کیا گیا تاکہ اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ مسیح زرہؔ اور ہتھیاروں کے ساتھ ظاہر نہیں ہو گا اور کوئی لڑائی اس کو پیش نہیں آئے گی بلکہ اس کی بادشاہت آسمان میں ہو گی اور اُس کا حربہ اس کی دعا ہو گی ۔ سو آپ لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ دین صلیبی اونچا ہو گیا
و چارۂ از قبول آواز حق نداشتم لذا بر خلق عرضہ دادم و بر شما آشکار است چنانچہ مدعائے آثار و اخبار است کہ مسیح موعود در وقت غلبۂ صلیب بروز کند و جبر کسر فتنہ ہا و کجر اہی ہائے صلیب کار او باشد و دلہائی مستعد را ہدایت بخشد وانہائے کہ ننگ و عار شاں از قبول دعوتش باز دادہ البتہ با حربۂ اتمام حجت کشتہ وارے شوند۔ لفظ نزول برائے او اشارت بدان است کہ او شخصے فقیر و ناتوان و سلاح و زرہ و سلطنت و سپاہ و حشمت اور انباشد۔ و رؔ زم و پیکار اورا در پیش نیاید۔ بل بادشاہی او در آسمان و سلاح و زرہ او دعائی او باشد۔ اکنون شما بچشم سردیدیدکہ دیانۂ صلیبی بلند شدہ