ومع ذالک کنتُ حرَّجتُ علی نفسی أن لا أتّبع إلہامًا أو کرر من اللّٰہ إعلاما ویوافق القرآن والحدیث مرامًا، وینطبق انطباقا تمامًا۔ ثم کان شرط منی لہذا الإیعاز أن لاأقبلہ من غیر أن أنظر إلی الاحیاز، ومن غیر أن أشاہد بدائع الإعجاز۔ فواللّٰہ رأیت فی إلہامی جمیع ہذہ الأشراط، ووجدتہ حدیقۃ الحق لا کالحماط۔ ثم کان ہذا بعد ما استطارت صدوع کبدی من الحنین إلی ربّی وصمدی، ومُتُّ میتۃ العشّاق، وأُحرِقتُ بأنواع الإحراق، وصُدمت بالأہوال، اور باوجود اس کے میں نے اپنے نفس پر یہ تنگی کر رکھی تھی کہ میں کسی الہام کی پیروی نہ کروں مگر بعد اس کے کہ بار بار خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کا اعلام ہو اور قرآن اور حدیث سے بکلی موافق ہو اور پوری پوری مطابقت ہو ۔ پھر اس کارروائی کیلئے ایک یہ شرط بھی میری طرف سے تھی کہ میں الہام کے بارے میں اس کے کناروں تک نظر ڈالوں اور بغیر مشاہدہ خوارق کے قبول نہ کروں ۔ پس بخدا کہ میں نے اپنے الہام میں ان تمام شرطوں کو پایا اور میں نے اس کو سچائی کا باغ دیکھا نہ اس خشک گھاس کی طرح جس میں سانپ ہو ۔ پھر یہ الہام اس وقت مجھے ملا جبکہ میرے جگر کے ٹکڑے خدا تعالیٰ کے شوق میں اڑے اور عشّاق الٰہی کی موت میرے پر آئی اور کئی قسم کے جلانے سے میں جلایا گیا اور کئی قسم کے خوفوں سے میں کوٹا گیا نفس خود را تنگ گرفتہ و پابند آن بودم کہ درپے ہیچ الہامے نروم تا آنکہ مکرراً از جانب خدا عزّاسمہ‘آگاہی دادہ شوم و باوجود آن با قرآن و حدیث موافقت کلی ومطابقت تامہ داشتہ باشد۔ وبعلاوہ بر خود لازم کردہ بودم کہ نگاہے دقیقے در ہمۂ اطراف الہام بیندازم و زنہا ر آنرا قبول نکنم تا آنکہ خوارق عجیبہ و اعجاز کامل ہمراہ آن نیابم۔ اکنوں سو گند بخدا ئے بزرگ یادمے کنم مے گویم کہ این شرائط را بتمامہا در الہام خود موجود می بینم و آنرا باغے سر سبزو آراستہ می بینم نہ چوں آں گیا ہے کہ مار در زیر آن پنہاں باشد۔ و قطع نظر ازین ہمہ این الہام وقتے نصیب من شد کہ از شوقِ الٰہی جگر من پارہ پارہ شد و موت عشاق بر من واردآمد و از گوناگون آتشہا بسو ختم۔ و از اقسام خوفہا کوفتہ گردیدم و