سرّ إحمادہ، فہو بحار فضل اللّٰہ وموالات امدادہ، وعنایۃ اللّٰہ التی ما وکلتہ طرفۃ عین إلی سعیہ واجتہادہ، حتی شغفہ وجہ اللّٰہ حُبًّا وأوحدہ فی ودادہ، ففار قلبہ لتحمید ہذا المحسن حتی صار الحمد عین مرادہ۔ وہذہ مرتبۃ ما أعطاہا اللّٰہ لغیرہ من الرسل والأنبیاء والأبدال والأولیاء ، فإنہم وجدوا بعض معارفہم
وعلومہم ونعمہم بوساطۃ العلماء والآباء والمحسنین وذوی الآلاء ، وأما نبینا صلی اﷲ علیہ وسلم فوجد کل ما وجد من حضرۃ الکبریاء
صاحب تعریف ٹھہرانے کا سرّ یہ تھا کہ خدا تعالیٰ نے متواتر اور پیاپے اس پر اپنے فضل نازل کئے اور وہ عنایت اس کے شامل حال کی جس نے ایک طرفۃالعین بھی اس کو اپنی کوشش اور سعی کا محتاج نہ کیا۔ یہاں تک کہ وجہ اللّٰہ نے اس کے دل کو چیر کر اپنا دخل اس میں کیا اور اپنی محبت میں اس کو یگانہ بنایا۔ پس اس محسن کی تعریف کے لئے اس کے دل نے جوش مارا اور خدا تعالیٰ کی تعریف اس کی دلی مراد ہو گئی ۔ اور یہ وہ مرتبہ ہے کہ بجز اس کے کسی کو رسولوں اور نبیوں اور ابدالوں اور ولیوں میں سے عطا نہیں ہوا کیونکہ اُن لوگوں نے اپنے بعض معارف اور علوم اور نعمتیں بتوسط عالموں اور باپوں اور احسان کرنے والوں کے پائی تھیں۔مگر ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو کچھ پایا جناب الٰہی سے پایا ۔ اور جو کچھ ان کو ملا
آنکہ ستایش خداوندی را بدین غایت ادا ساخت آن کہ خدا وند تعالیٰ شانہ پیاپے مہر بانیہائے خود را بروی فرود آورد۔ و عنایتے وکرمے در کاروی کرد کہ برائے چشم زدن ہم ویرا نشد نیاز و احتیاج بکوشش و محنت خود بیارد تا آنکہ وجہ اللّٰہ اندرونش رابشگافت و خودش در درون در شدو اور ادر مہر و حب خود یگانہ گردانید۔ لہٰذادل آنجناب درنیایش و ستایش ہمچو کارساز نیکی کن بجوش آمد۔ و ستایش خداوندی کام جان وے گردید۔ واین مرتبہ ایست کہ غیر آنجناب را از انبیا ء و اولیا ء و ابدال و رسل دست بہم نداد زیر ا کہ اوشان بعضی علوم و معارف را از واسطۂ آموز گاران و پدران و تربیت کنند گان بدست آور دند۔ ولی نبی ما (صلی اللہ علیہ وسلم )