بالنبش ویُبدَی، وکان أبی متلاحق الأفکار فی أمری، ودائم الفکر من سیرۃ ہونی وعدم شمری، وکان یسعی لنرقی علی ذروۃ شاہق الإقبال، ونصل الدولۃ کآباء نا الأمراء والأجیال۔ فالحاصل أن قصد أبی کان أن نصل فی الدنیا إلی مراتب عظمی، وکان اللّٰہ أرادلی مرتبۃ أخری، فما ظہر إلَّا ما أراد ربّیَ الأعلٰی۔ فوہب لی نورا فی لیلۃ داجیۃ الظلُم، فاحمتہ اللمم، وأضاء قلبی لإضاءۃ القوم والأمم۔ ومنَّ علیَّ وجعلنی المسیح الموعود اور ظاہر کیا جائے۔ اور میرا باپ میرے معاملہ میں ہمیشہ غمگین رہتا تھا اور میری آ ہستگی کی خصلت اور دنیا کے کاموں میں شوخ اور چالاک نہ ہونا اس کو فکر اور غم میں رکھتا اور وہ اس کوشش میں تھا کہ تاہم اقبال کے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جائیں اور اپنے بزرگوں کی طرح دولت اور امیری کو پا لیں ۔ حاصل کلام یہ کہ میرے باپ کا ارادہ تھا کہ ہم دنیا کے اعلیٰ سے اعلیٰ مراتب پر پہنچ جاویں لیکن خدا نے میرے لئے ایک اور رتبہ کا ارادہ کر رکھا تھا ۔ پس جو خدا نے چاہا وہی ہوا۔ اور اُس نے مجھے سخت سیاہ رات میں جس کے سیاہ اور لمبے بال تھے نور عطا فرمایا اور میرے دل کو امتوں اور قوموں کے روشن کرنے کیلئے روشن کیا اور میرے پر احسان کیا اور مجھے مسیح موعود بنایا پدر من ہموارہ از بابت من اندوہگین می بود و خوارداشتن من دنیا را و چست نبودن من در کا ر آں دائمااو را در اندیشہ داشت۔ و کوشش آن میکرد کہ ما بر قُلّہ کوہِ اقبال و جاہ بالا رویم۔ و بر روش بزرگان و پد رانِ خویش دولت و مکنت را در دست آریم۔ خلاصہ پدرم از بس میخواست کہ دریں دنیا بر مرتبہ ہائے بزرگ برسیم و لیکن خدا برائے من مرتبۂ دیگرا رادہ کردہ بود۔ بالآخر ہمان شد کہ پرور دگار من خواستہ بود ۔ پس اومرا درشب تار سیاہ کہ روکش زغال وزاغ بود روشنی بخشید۔ و مرا نوری دردست داد کہ قوم ہارا روشن سازم و از کمال منت بر حسب وعدۂ قدیم مرا مسیح موعود بگردانید