سَبُّوا وَمَا أَدْرِی لاَیِّ جَرِیمَۃٍ سَبُّوا أَنَعْصِی الْحِبَّ أَوْ نَتَجَنَّبُ اَقْسَمْتُ أَنِّی لَنْ أُفَارِقَہٗ وَلَوْ مَزَّقَتْ أُسُودٌ جُثَّتِی أَوْ أَذْءُ!بُ ذَہَبَتْ رِیَاسَاتُ الاُناسِ بِمَوْتِہِمْ وَلَنَا رِیَاسَۃُ خُلَّۃٍ لَا تَذْہَبُ وکذالک کنت قد انقطعت من الناس، وعکفت علی اللّٰہ فارغًا من الصلح والعماس، وکنت أعلم وأنا حدَث أن اللّٰہ ما خلقنی إلَّا لأمر عظیم، وکانت قریحتی تبغی الارتقاء وقرب ربٍّ کریم۔ وکان تبر جوہری یبرق فی عرق الثری، من غیر أن یستثار انہوں نے گالیاں دیں اور میں نہیں جانتا کیوں دیں کیا ہم اُس دوست کی مخالفت کریں یا اُس سے کنارہ کریں ۔ میں نے قسم کھائی ہے کہ میں اس سے علیحدہ نہیں ہو ں گا اگرچہ شیر یا بھیڑیا مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں۔ لوگو ں کی ریاستیں ان کے مرنے کے ساتھ جاتی رہیں اور ہمارے لئے دوستی کی وہ ریاست ہے جو قابل زوال نہیں ۔ اور اسی طرح میں لوگوں سے منقطع ہو چکا تھا ۔ اور دنیوی صلح اور جنگ سے فارغ ہو کر خداتعالیٰ کی طرف جھک گیا تھا اور میں ابھی نوجوان تھا کہ اس بات کو جانتا تھا کہ خد اتعالیٰ نے مجھے ایک امر عظیم کیلئے پیدا کیا ہے اور میری طبیعت ترقی اور قرب ربّ العالمین کو چاہتی تھی۔ اور میری طبیعت کا سونا خاک کی جڑ میں چمک رہا تھا بغیر اس کے کہ وہ کھود کر نکالا جائے دشنام داد ند حیرانم کہ جرم من چیست آیا خلاف آں دوست بکنیم یا ازوے رو بگرد انیم۔ سوگند خوردہ ام نہ ہرگز از وے جدا نخوا ہم شد اگرچہ شیرو گرگ مرا پارہ پارہ بکنند۔ ریاست مردم بعد از مرگ فنا می پز یر دولے ریاست دوستی مارا ابداً زوال نیست۔ ہمچنین از مردم بریدہ و از آشتی واستیز کنا رجستہ ہمگی رو بخدا آوردہ بودم۔ وہنوز جوان بودم کہ مے فہمیدم خدا مرا برائے کارے بزرگ خلق فرمودہ است۔ نہاد من نزدیکی پرور دگا ر جہان و ترقی را آرزو داشت و زر جوہر من در تہہ خاک مے درخشید بغیر آنکہ کندیدہ و برون دادہ شود۔ و