اگر ؔ یہ کہو کہ اس کو پکڑے جانے کا خوف تھا تو میں کہتا ہوں کہ جب ایک دفعہ خدائے تعالیٰ کی تقدیر اس پر وارد ہو چکی اور وہ مر کر پھر جلالی جسم کے ساتھ زندہ ہوچکا تو اب اس کو یہودیوں کا کیا خوف تھا۔ کیونکہ اب یہودی کسی طرح اس پر قدرت نہیں پاسکتے تھے۔ اب تو وہ فانی زندگی سے ترقی پاچکا تھا۔ افسوس کہ ایک طرف تو اس کا جلالی جسم سے زندہ ہونا اور حواریوں کو ملنا اور جلیل کی طرف جانا اور پھر آسمان پر اٹھائے جانا بیان کیا گیا ہے اور پھر بات بات میں اس جلالی جسم کے ساتھ بھی یہودیوں کا خوف ہے اس ملک سے پوشیدہ طور پر بھاگتا ہے کہ تا کوئی یہودی دیکھ نہ لے اور جان بچانے کے لئے ستر۷۰ کوس کا سفر جلیل کی طرف کرتا ہے۔ بار بار منع کرتا ہے کہ یہ واقعہ کسی کے پاس بیان نہ کرو۔ کیا یہ جلالی جسم کے لچھّن اور علامتیں ہیں؟ نہیں بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ کوئی جلالی اور نیا جسم نہ تھا وہی زخم آلودہ جسم تھا جو جان نکلنے سے بچایا گیا۔ اور چونکہ یہودیوں کا پھر بھی اندیشہ تھا اس لئے برعایت ظاہر اسباب مسیح نے اس ملک کو چھوڑ دیا۔اس کے مخالف جس قدر باتیں بیان کی جاتی ہیں وہ سب کی سب بیہودہ اور خام خیال ہیں کہ پہرہ داروں کو یہودیوں نے رشوت دی کہ تم یہ گواہی دو کہ حواری لاش کو چُرا کر لے گئے اور ہم سوتے تھے۔ اگر وہ سوتے تھے تو ان پر یہ سوال ہوسکتا ہے کہ تم کو سونے کی حالت میں کیونکرمعلوم ہوگیا کہ یسوع کی لاش کو چوری اٹھا لے گئے۔ اور کیا صرف اتنی بات سے کہ یسوع قبر میں نہیں کوئی عقلمند سمجھ سکتا تھا کہ وہ آسمان پر چلا گیا ہے۔ کیا دنیا میں اور اسباب نہیں جن سے قبریں خالی رہ جاتی ہیں؟ اس بات کا بارِ ثبوت تو مسیح کے ذمہ تھا کہ وہ آسمان پر جانے کے وقت دو تین سو یہودیوں کو ملتا اور پلاطوس سے بھی ملاقات کرتا ۔جلالی جسم کے ساتھ اس کو کس کا خوف تھا مگر اس نے یہ طریق اختیار نہیں کیا اور اپنے مخالفوں کو ایک ذرہ ثبوت نہیں دیا بلکہ خوفناک دل کے ساتھ جلیل کی طرف بھاگا۔ اس لئے ہم قطعی طور پر یقین رکھتے اور مانتے ہیں کہ اگر چہ یہ سچ ہے کہ وہ اس قبر میں سے نکل گیا جو کوٹھے کی طرح کھڑکی دار تھی اور یہ بھی سچ ہے کہ وہ پوشیدہ طور پر حواریوں کو ملا مگر یہ