بنا فرحتان کزہر البساتین: فرحۃ الأمن وفرحۃ الحُرّیّۃ فی الدین۔ وما کان لی حظ من ریاسۃ آبائی العبقرییین، فصرتُ بعد موت أبی کالمحرومین۔ وقد أتٰی علیَّ حین من الدہر لم أکن شیئا مذکورًا، وکنت أعیش خفیًّا ومستورًا، لا یعرفنی أحد إلَّا قلیل من أہل القریۃ، أو نفر من القُری القریبۃ۔فکنت إن قدمت من سفر فما سألنی أحد من أین أقبلت، وإن نزلت بمکاؔ ن فما سأل سائل بأیّ مکان حللت۔ وکنت أحب ہذا الخمول وہذا الحال، وأجتنب الشہرۃ والعزّۃ با غوں کے پھولوں کی طرح ہمارے وجود میں پھوٹ نکلیں۔ ایک امن کی خوشی اور دوسری دینی آزادی کی خوشی۔ اور مجھے اپنے معظم اور مکرم بزرگوں کی ریاست سے کچھ حصہ نہیں ملا اور میں اپنے باپ کی موت کے بعد محروموں کی طرح ہو گیا اور میرے پر ایک ایسا زمانہ گذرا ہے کہ بجز چند گاؤں کے لوگوں کے اور کوئی مجھ کو نہیں جانتا تھا یا کچھ ارد گرد کے دیہات کے لوگ تھے کہ روشناس تھے اور میری یہ حالت تھی کہ اگر میں کبھی سفر سے اپنے گاؤں میں آتا تو کوئی مجھے نہ پوچھتا کہ تو کہاں سے آیا ہے اور اگر میں کسی مکان میں اُترتا تو کوئی سوا ل نہ کرتا کہ تُو کہاں اُترا ہے اور میں اس گمنامی اور اس حال کو بہت اچھا جانتا تھا اور شہرت اور عزت اور اقبال سے آب رفتہ در جو ئے ما با ز آمد ودوتا شادی و خورمی چوں شگفتن غنچہ ہا از نہاد ما سر برزد۔ یکے خورمئی امنِ جان و دیگر ے آزادی دین و ایمان۔ من از امارت بزرگان خود بہرۂ نیا فتم و بعد از مرگِ پدر چون محرومان گر دید م ۔ و روزگار ے برسر من گزشتہ کہ غیر از تنے چند از اہالئی دِہ یا متعدد ے از نواح مرا نہ می شناخت۔ و ہر گا ہ چنانچہ از سفر باز آمدن اتفاق مے افتادکسے از اہل دِہ نمی پُرسید از کُجا می آئی۔ و اگر جائے فرومی کشیدم کسے لب نمی کشود کُجا فر ود آمدی۔ امامن ایں گمنامی و کس مپرسی را از جان دوست داشتم و نہاد من بہ طورے افتادہ بود کہ پوشیدگی و بریدن از مردم را