یہ عاؔ دت معلوم ہوتی ہے کہ وہ بات کا بتونگڑا بنا لیتے ہیں اور ایک ذرہ سی بات پر حاشیے چڑھاتے چڑھاتے ایک پہاڑ اس کو کر دیتے ہیں۔مثلاً کسی انجیل نویس کے منہ سے نکل گیا کہ مسیح خدا کا بیٹا ہے۔ اب دوسرا انجیل نویس اس فکر میں پڑتا ہے کہ اس کو پورا خدا بنا وے اور تیسرا تمام زمین آسمان کے اختیار اس کو دیتا ہے اور چوتھا واشگاف کہہ دیتا ہے کہ وہی ہے جو کچھ ہے اور کوئی دوسرا خدا نہیں۔ غرض اس طرح پر کھینچتے کھینچتے کہیں کا کہیں لے جاتے ہیں۔ دیکھو وہ رؤیا جس میں نظر آیا تھا کہ گویا مُردے قبروں میں سے اٹھ کر شہر میں چلے گئے۔ اب ظاہری معنوں پر زور دے کر یہ جتلایا گیا کہ حقیقت میں مُردے قبروں میں سے باہر نکل آئے تھے اور یروشلم شہر میں آکر اور لوگوں سے ملاقاتیں کی تھیں۔ اس جگہ غور کرو کہ کیسے ایک پر کا کوّا بنایا گیا۔ پھر وہ ایک کوّا نہ رہا بلکہ لاکھوں کوّے اڑائے گئے۔ جس جگہ مبالغہ کا یہ حال ہو اس جگہ حقیقتوں کا کیونکر پتہ لگے۔ غور کے لائق ہے کہ ان انجیلوں میں جو خدا کی کتابیں کہلاتی ہیں ایسے ایسے مبالغات بھی لکھے گئے کہ مسیح نے وہ کام کئے کہ اگر وہ سب کے سب لکھے جاتے تو وہ کتابیں جن میں وہ لکھے جاتے دنیا میں سما نہ سکتیں۔ کیا اتنا مبالغہ طریق دیانت و امانت ہے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اگر مسیح کے کام ایسے ہی غیر محدود اور حد بندی سے باہر تھے تو تین برس کی حد میں کیونکر آگئے۔ ان انجیلوں میں یہ بھی خرابی ہے کہ بعض پہلی کتابوں کے حوالے غلط بھی دئیے ہیں۔ شجرہ نسب مسیح کو بھی صحیح طور پر لکھ نہ سکے۔ انجیلوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان بزرگوں کی عقل کچھ موٹی تھی یہاں تک کہ بعض حضرت مسیح کو بھوت سمجھ بیٹھے اور ان انجیلوں پر قدیم سے یہ بھی الزام چلا آتا ہے کہ وہ اپنی صحت پر باقی نہیں رہیں۔ اور خود جس حالت میں بہت سی اور بھی کتابیں انجیل کے نام سے تالیف کی گئیں۔ تو ہمارے پاس کوئی پختہ دلیل اس بات پر نہیں کہ کیوں ان دوسری کتابوں کے سب کے سب مضمون ردّ کئے جائیں اور کیوں اِن انجیلوں کا کُل لکھا ہوا مان لیا جائے۔ ہم خیال نہیں کرسکتے کہ کبھی دوسری انجیلوں میں اس قدر بے اصل مبالغات