والإقبال، وکانت جبلّتی خُلقت علی حبّ الاستتار، وکنت مَزُورًا عن الزوّار، حتی یئس أبی منی وحسبنی کالطارق الممتار۔ وقال رجل ضری بالخلوۃ ولیس مخالط الناس رحب الدار۔ فکان یلومنی علیہ کمؤدّب مغضب مرہف الشفار، وکان یوصینی لدنیای سِرًّا وجہرًا وفی اللیل والنہار، وکان یجذبنی إلی زخارفہا وقلبی یُجذب إلی اللّٰہ القہّار۔ وکذالک تلقّانی أخی وکان یُضاہی أبی فی ہذہ الأطوار، فتوفّٰہما اللّٰہ پرہیز کرتا تھا اور میری طبیعت کچھ ایسی واقع تھی کہ میں پوشیدہ رہنے کو بہت چاہتا تھا اور میں ملنے والوں سے تنگ آجا تا تھا اور کوفتہ خاطر ہو تا تھا یہاں تک کہ میرا باپ مجھ سے نو مید ہو گیا اور سمجھا کہ یہ ہم میں ایک شب باش مہمان کی طرح ہے جو صرف روٹی کھانے کا شریک ہوتا ہے اور گمان کیا کہ یہ شخص خلوت کا عادی ہے اور لوگوں سے وسیع گھر کے ساتھ میل جول رکھنے والا نہیں ۔ سو وہ ہمیشہ مجھے اس عادت پر غضب سے اور تیز کاردوں سے ملامت کرتا اور مجھے دن رات اور ظاہر اور در پردہ دنیا کی ترقی کے لئے نصیحت کیا کرتا تھا اور دنیا کی آرائشوں کی طرف رغبت دیتا تھااور میرا دل خدا کی طرف کھنچا جا رہا تھا۔ اور ایسا ہی میرا بھائی مجھے پیش آیا اور وہ ان باتوں میں میرے باپ سے مشابہ تھا۔ پس خدا نے اِن دونوں کو از بس خواہان بودم ۔ و از بینندہ ہاخیلے ملالت می کشیدم تا آنکہ پدرم از من نومید شدومرا از طفیلیان مفت خور می پند اشت و دید کہ ایں کس خوگر فتہء تنہائی است و با مردم خانہ آمیز گاری ندارد۔ ناچار بر این و تیرہؔ ؔ مراچوں آموز گار خشم ناک نکوہش می فرمودو کارد زبان را بر من تیزمے کرد۔ و روز و شب و نہان و آشکاربرائے حصول دنیا پندد اندر زمی داد۔ و بسوئے آرائش و پیرائش دنیا مرا بزورمے کشید۔ ولے دلِ من بہ کشش تمام میل بسوئے خدا ئے یگانہ مے آورد۔ و ہمچنیں برادر بزرگ بامن رفتارمی نمود۔ داد در این شیوہ ہا برپئے پدر قدم مے زد۔ آخر خدا ہر دو را در جوار رحمت خود جائے بداد