ولیس علیہؔ غبار من الشبہات۔ لأنہ کلام جامع وتعلیم کامل أحاط جمیع ضرورات الإنسان وسبیل الرحمٰن، وما غادر شیئا من دلائل الحق وإبطال الباطل ودقائق العرفان، مع بلاغۃ رائعۃ وعبارات مستعذبۃ وحسن البیان، وہذا أمر لیس فی قدرۃ الإنسان۔ وأما قولنا أنّہا معجزۃ عملیۃ فہی کشعبتہا الأولی واقعۃ بدیہیۃ، ولا یسع فیہا إنکار و اور اس پر کسی قسم کے شبہات کے غبار نہیں کیونکہ وہ ایک ایسا کلام ہے جو ضروری تعلیموں اور ضروری وصایا اور معارف اور دلائل کو اپنے اندر جمع رکھتا ہے اور وہ ایک ایسی تعلیم کامل ہے جو تمام انسانی ضرورتوں کو جو خدا تعالیٰ تک پہنچنے کیلئے پیش آتی ہیں پور ی کرتی ہے اور جو حق کے ثبوت میں دلائل پیش کرنا چاہے یا جس طرح باطل کا ردلکھنا چاہے اور یا جس طور اور انداز سے معرفت کی باریک باتیں بیان کرنی چاہے انؔ میں سے ایک بات کو بھی اس نے نہیں چھوڑا اور اس پر زائد یہ امر ہے کہ ان تمام تعلیموں اور احکام اور حدود کو نہایت فصیح اور بلیغ اور شیریں اور پسندیدہ پیرایہ میں بیان فرمایا ۔اور یہ ایک ایسا امر ہے جو انسان کی قدرت سے بالا تر ہے۔ اور ہمارا یہ قول کہ قرآن جیسا کہ علمی معجزہ ہے ایسا ہی وہ عملی معجزہ بھی ہے۔ سو یہ امر بھی اُس کی پہلی شاخ کی طرح ایک بدیہی واقعہ ہے اور انکار کہ دامان وے از غبار شبہت پاک است زیرا کہ قرآن کلامے است کہ جمیع تعلیم ہائے ضروری و وصیتہائے ضروری و معارف ہائے لا بدی را کہ در راہ وصول بہ خدا چارہ ازاں نہ جامع می باشد۔ و از قبیلِ دلائل حق و دقائق عرفان و ابطال باطل چیزے فرو گذاشت نفرمودہ۔ و بعلاوۂ آن آن دلائل و براہین را با عبارات بلیغۂ فصیحہ و طرز شیریں و دلکش و پسندیدہ در معرض بیان آوردہ و ایں امر البتہ خارج از احاطۂ قدرتِ بشری است۔ واما آنچہ گفتیم قرآن معجزۂ عملی است این ہم واضح و روشن و انکار را درآن مدخل نیست۔