ولا تبقی الضوضاۃ لعامۃ الأہواء۔ ویُقال لمن الملک الیوم۔ للّٰہ ذی المجد والکبریاء۔ وأمّا مرتبۃ الأخلاق الفاضلۃ والخصال الحسنۃ المحمودۃ، فلا أمن فیہا من الأعداء عند الغفلۃ، فإن لأہل الأخلاق تبقیٰ حصون یتعذّر علیہم فتحہا، ویُخاف علیہم صول الأمّارۃ إذا ضرم لتحہا، ولا تصفوا أیام أہلہا من النقع الثائر، ولا یُؤمّنون من السہم العائر. فالحاصل أن ہذہ تعالیم الفرقان، وبہا استدارت دائرۃ تکمیل نوع الإنسان فتح ہو جاتا ہے اور ہو ا وہوس کے عوام کا شور باقی نہیں رہتا اور کہا جاتا ہے کہ آج کس کاملک ہے اور یہ جواب ہوتا ہے کہ خدائے ذوالمجد والکبریا کا۔ مگر جو مرتبہ اخلاق فاضلہ اور نیک خصلتوں کا ہے اُس میں غفلت کے وقت دشمنوں سے امن نہیں ہے کیونکہ جن لوگوں کا سلوک اخلاق تک ہی محدود ہوتا ہے ان کیلئے ابھی ایسے قلعے باقی ہوتے ہیں جن کا فتح کرنا مشکل ہوتا ہے اور ان کی نسبت یہ اندیشہ دامنگیررہتا ہے کہ نفس امارہ اپنی بھوک کے بھڑکنے کے وقت حملہ نہ کرے اور جو شخص صرف اخلاق تک ہی اپنا کمال رکھتا ہے اس کی زندگی کے دن گرد وغبار سے پاک نہیں رہ سکتے اورایسے لوگ ہوائی تیروں سے امن میں نہیں رہ سکتے ۔ پس حاصل کلام یہ ہے کہ یہ جو ہم نے بیان کیا ہے یہ قرآن شریف کی تعلیمیں ہیں اور انہی تعلیموں کے ساتھ انسان کی تکمیل علمی اور عملی کا دائرہ اپنے کمال کو پہنچتا ہے و عوام ہوا و ہوس را سر فتنہ و شورش کوفتہ گردد وآن وقت گفتہ شود کہ امروز ملک کر است جواب باشد خدائے بزرگ یگانۂ بے ہمتا ر است۔ اما آنچہ مرتبۂ اخلاق فاضلہ و خو ہائے نیک می باشد دران مرتبہ در ہنگام غفلت ایمنی از دشمنان نتو اند بود۔ چہ اہل اخلاق را ہنوز قلعہاست کہ فتح آن بر ایشاں خیلے دشوار است و اندیشۂ بسیاراست کہ نفس امارہ در وقت اشتعال بر ایشاں بتازد۔ بحقیقت ہر کہ تا بمنزل اخلاق رخت بیاند از و نمی شود۔ روز گار حیا تش از گرد و غبار پاک باشد و ہرگز نمی شود ہمچوں کسان از تیر ہوائی ایمن و مطمئن بگردند۔ خلاصہ این تعلیم فرقان است و ہمین است آنچہ دائرہ تکمیل علمی و عملی انسان را بکمال رساند۔