ویوصل إلی منزل القرب والرضاء والمعیۃ والفناء والذوبان والمحویّۃ، أعنی إلی مقام ینعدم فیہ أثر الوجود والاختیار، ویبقی اللّٰہ وحدہ کما ہو یبقی بعد فناء ہذا العالم بذاتہ القہّار۔ فہذہ آخر المقامات للسالکین والسالکات، وإلیہ تنتہی مطایا الریاضات، وفیہ یختتم سلوک الولایات۔ وہو المراد من الاستقامۃ فی دعاء سورۃ الفا تحۃ، وکل ما یتضرم من أہواء النفس الأمّارۃ فتذوب فی ہذا المقام بحکم اللّٰہ ذی الجبروت والعزّۃ، فتفتح البلدۃ کلہا اور یہ کہ قرب اور رضا اور معیت اور فنا اور محویت کے مقام اُن کو عطاہوں یعنی وہ مقام جس میں وجود اور اختیار کا نشان باقی نہیں رہتا اور خدا اکیلا باقی رہ جاتا ہے جیسا کہ وہ اس عالم کے فنا کے بعد اپنی ذات قہّار کے ساتھ باقی رہے گا۔ پس یہ سالکوں کے لئے کیا مرد اور کیا عورت آخری مقام ہے اور ریاضتوں کے تمام مَرکب اِسی پر جا کر ٹھہر جاتے ہیں اور اِسی میں اولیا ء کے ولایتوں کے سلوک ختم ہوتے ہیں۔ اور وہ استقامت جس کا ذکر سورۃ فاتحہ کی دعا میں ہے اس سے مراد یہی مرتبہ سلوک ہے۔ اور نفس امّارہ کی جس قدر ہوا و ہوس بھڑکتی ہے وہ اسی مقام میں خدائے ذوالجبروت والعزّت کے حکم سے گداز ہوتی ہے۔ پس تمام شہر در منزل قرب و رضا و معیت و فنا و گدازش و محویت باربہ بخشد و آن مقامے است کہ آنجا از وجود و اختیار نامے نماند و آن خدائے یگانہ باقی می باشد ہمچنان کہ او بعد از فنائے این عالم باذات بر تر خویش باقی باشد۔ ایں مقام برائے سالکان از مرد و زن مقام آخرین است ومرکبہائے ریاضات ہمیں جا بآخر رسد و سلوک ولایت جملہ اولیا تا بد ینجا منتہی شود و ہمین است غرض از استقامتے کہ در سورۂ فاتحہ مذکور و مطلوب است۔ و ہر چہ از آتش ہوائے نفسِ امّارہ سر بالا کشد ہمیں جا بحکم خدائے بزرگ و بر تر کشتہ و برباد فنا رود۔ پس شہر بکلی مفتوح شود