وأقبل علیہم بالتفضلات الأزلیّۃ۔ وإن الصحابۃ أُخِذوا بہذا الأثر من تحت الثری ورُفِعوا إلی سمک السماء ، ونُقِلوا درجۃ بعد درجۃ
إلی مقام الاجتباء والاصطفاء۔وقد وجدہم النبی کعجماوات لایعلمون شیئا من تہذیب وتقاۃولا یُفرّقون
بین صلاح وہنات، فعلّمہم أوّلا آداب الإنسانیۃ باؔ لاستیفاء
اور عنایا ت ازلیہ کے ساتھ اُس کی طرف توجّہ کی اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی قوتِ قدسیہ کو سوچ کہ صحابہ زمین کے نیچے سے لئے گئے اور آسمان کی بلندی تک پہنچائے گئے اور درجہ بدرجہ برگزیدگی کے مقام تک منتقل کئے گئے۔ اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُن کو چارپا یوں کی مانند پایا کہ وہ توحید اور پرہیز گاری میں سے کچھ بھی نہیں جانتے تھے اور نیکی بدی میں تمیز نہیں کر سکتے تھے ۔ پس رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو انسانیت کے آداب سکھلائے۔ اورؔ تمدن اور بودوباش کی راہوں پر مفصل مطلع کیا اور اُن کے لئے پاکیزگی کے طریقوں اور دانتوں کو صاف کرنا اورمسواک کرنا اور خلال بعد طعام چاشت و طعام شب کرنا اور بول کرکے جلدی سے نہ اٹھنا بلکہ بقیہ قطرات
و باران رحمت و فضل بے اندازہ بر سرش بارید۔ اثر آں قوۂ قدسیہ را بدقت نظربہ بیں کہ صحابہ ر ا از زیر طبقاتِ زمین بکشید و براوج فلک رسانید۔ وبآ خر تدریجاًخلعتِ بر گزیدگی براوشاں پوشانید۔ آن نبی کریم اوشان راچون مواشی دید کہ ازراہ توحید و پر ہیز گاری ہیچ آگاہی ندا شتندو نیک را از بد نمی شناختند۔ لہٰذا اولاًبایشان آداب انسانیت چنانچہ شاید بیاموخت و طریق تمدن و معاشرت مفصلاتعلیم فرمود از قبیل طہارت و پاک کردن دندان و مسواک کردن و بعد طعام چا شت و شب خلال کردن ۔ و پس از بول زود بر پانشدن بل بگذاشتن تا بقیہ قطرہ ہا نجوشد و با صفائی ہر چہ