المواسین۔ وطالما سلک فی سِکک مکۃ کوحید طرید، وتصدّی بقوۃ النبوۃ لکل عذاب شدید، وکان یُقبل علی اللّٰہ کل لیلۃ، ویسأل اللّٰہ انفتاح عیونہم ونزول فضل ورحمۃ، حتی استجیب الدعوات، وضاع مسکہا وتوالی النفحات۔ ونزل أمر مقلّب القلوب، وأوتوا قوۃ من مُعطی الحب وزارع الحبوب، فبُدّلت الأرض غیرالأرض بحکم حضرۃ الکبریاء وجُذبت النفوس إلی الدّاعی المبارک وسمع نداء ہ قلوب السعداء ، وأفضی إلی مقتلہ کل رشید
پا س آیا اور ایک مدت تک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اکیلے اور ردّ شدہ انسان کی طرح مکہ کی گلیوں میں پھرتے رہے اور قوت نبوّت سے ہر ایک عذاب کا مقابلہ کیا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ عادت تھی کہ رات کو اٹھ کر خد اتعالیٰ کی طرف توجہ کرتے اور خدا تعالیٰ سے ان کی بینائی اور فضل اور رحمت چاہتے ۔ یہاں تک کہ دعائیں قبول کی گئیں اور ان کی کستوری کی خوشبو پھیلی اور خوشبوئیں پے در پے پھیلنی شروع ہوئیں اور دلوں کے بدلنے والے کا حکم نازل ہوا اور اُس ذات سے اُن کو قوت عطا ہوئی جو محبت کو عطا کرتا اور دانوں کو اگاتا ہے ۔ سو حکم الٰہی سے زمین بدلائی گئی اور آواز دینے والے بابرکت کی طرف دل کھینچے گئے اور ہر ایک رشید اپنے قتل گاہ کی طرف صدق اور وفا سے
و تا زمانی دراز در کوچہ ہائے مکہ چون شخصے بے یارو یاوری راندہ شدہ گردش می کرد و باتاب و توان نبوت ہر رنجے سخت را بر خود آسان میگرفت۔ و شب را رو بخدا می آورد وازوی بزاری و گریہ میخواست کہ دیدۂ انہارابکشاید ودر فضل و رحمت بر روئے اُنہا باز نماید۔ تا آنکہ نیا زو گدازش پذیرفتہ شد و بوئی مشک آسایش و میدن و بمغز جانہا پیاپیَ رسیدن گرفت۔ و از طرف گرد انندۂ دلہا فرمان نازل شدو بخشندۂ مہر و محبت و نشانندہ دانہ ہا توانائی باوشان بخشید۔ پس باذن الہٰی انقلاب شگر فی پیدا و آن زمین بز مینے دیگر عوض شد۔ دلہا بسوئے آواز دہندۂ فرخندہ پے کشیدہ شد۔ و ہمہ نیک نہادان فرخ نزاد از صدق و وفا بسوئے