ما التقی وما خصال المتقین، وماؔ کان فیہم من کان صادقا فی الکلام غیر جافٍ عند فصل الخصام۔ فبینما ہم فی تلک الأحوال وأنواع الضلال والفساد فی الأقوال والأعمال والأفعال۔ اذ بُعث فیہم رسولٌ مّن أنفسہم فی بطن مکۃ، وکانوا لا یعلمون الرسالۃ والنبوۃ وما بلغہم رس من أخبارہا وما دروا ہٰذہ الحقیقۃ، فأبوا وعصوا وکانوا علی کفرہم وفسقہم مصرّین۔ وحمل رسول اللّٰہ صلّی اﷲ علیہ وسلم کل جفاۂم وصبر علی إیذاۂم، ودفع السیئات بالحسنۃ، والبغض بالمحبۃ، ووافاہم کالمحبّین خصلتیں کیا چیز ہیں۔ اور اُن میں کوئی ایسا نہ تھا کہ جو کلام میں صادق اور فیصلہ مقدمات میں متّصف ہو۔ پس اسی زمانہ میں جب کہ وہ لوگ ان حالات اور ان فسادوں میں مبتلا تھے اور ان کا تمام قول اور فعل فساد سے بھرا ہوا تھا۔ خداتعالیٰ نے مکہ میں سے اُن کیلئے رسول پید ا کیا اور وہ نہیں جانتے تھے کہ رسالت اور نبوت کیا چیز ہے اور اس حقیقت کی کچھ بھی خبر نہ تھی پس انکار اور نافرمانی کی اور اپنے کفر اور فسق پر اصرار کیا اور رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُن کے ہر ایک جفا کی برداشت کی اور ایذا پر صبر کیا اور بدی کو نیکی کے ساتھ اور بغض کو محبت کے ساتھ ٹال دیا اور غمخواروں اورمحبوں کی طرح اُن کے ازین کہ پرہیز گار ی وخوہائے پرہیز گاران کدام چیزے می باشد۔ درمیانۂ اُنہاکسے راست گفتار و در وقت بر پاشدن قضیہ ہا نصفت کا ر ونیک کردار نبود۔ در اثنائے این حال کہ در بد گفتاری و بدکرداری و کجرہ روی نوبت انہا بدینجا رسیدہ بود کہ پیغمبری ازیشاں در مکۂ مکرمہ ظہور فرمود و ایشان قبل ازان از رسالت و نبوت آگاہ وگاہے پئ بہ کنہ آن نبردہ بودند۔ پس نتیجہ آں بود کہ گردن کشیدند و بر کفر و بدکاری اصرار ور زیدند۔ و رسول خدا (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہر گونہ آزار ر ا ز اُنہا برداشت و ہرگز نا شکیبائی را بخود راہ نداد و بدی را بانیکی ودشمنی را بادوستی پاداش میفرمود وچون یاران غمگسار باانہارفتارمی نمود