یقتلون أولادہم خوفا من الإملاق والخصاصۃ، ویقتلون بناتہم عارًا من أن یکون لہم ختن من شرکاء القبیلۃ۔ وکذلک کانوا یجمعون فی أنفسہم أخلاقا ردیّۃ،وخصالا رذیلۃ مہلکۃ، حتی کثر فیہم حزب المقرفین الزنیمین، وعاہرات متخذات أخدانا والزانین۔ والذین کانوا یُخالفون آثار مہیعہم فکانوا یخافون عند نصحہم علی عرضہم ونفسہم وأہل مربعہم۔ فالحاصل أن العرب کان قوم لم یواجہوا فی مدۃ عمرہم تلقاء الواعظین، وکانوا لایدرون کو انتہا تک پہنچاتے تھے۔ اور وہ لوگ اپنی اولاد کو درویشی اور تنگ دستی کے خوف سے قتل کر دیا کرتے تھے اور بیٹیوں کو اس عار سے قتل کرتے تھے کہؔ تاشرکاء میں سے ان کا کوئی داماد نہ ہو اور اسی طرح انہو ں نے اپنے اندر اخلاق ردیہ اور رذیل خصلتیں جمع کر رکھی تھیں۔یہاں تک کہ اُن میں ایک جماعت بداصلوں اور ولدالحراموں کی ہو گئی تھی اور عورتیں زانیہ آشناؤں سے تعلق رکھنے والیں اور مرد زانی پیدا ہو گئے تھے اور جو لوگ اُن کی راہ کے مخالف ہوتے تھے وہ نصیحت دینے کے وقت اپنی عزت اور جان اور گھر کی نسبت خوف کرتے تھے۔ غرض عرب کے لوگ ایک ایسی قوم تھی جن کو کبھی واعظوں کے وعظ سننے کا اتفاق نہ ہوا اور نہیں جانتے تھے کہ پرہیز گاری اور پرہیز گاروں کی از بیم گر سنگی و نا داری می کشتند۔ ودختران را از ننگ آں کہ نبا ید از دود مان کسے بدامادی سر بلندی بکند بر خاک ہلاک می نشاند ند۔ و ہمچنین رو شہائے نا پسندیدہ وخوہائے نکوہیدہ در خود گرد آوردہ بودند۔ تا اینکہ در انہا گروہے بسیار از حرام زادہ ہائے بد نژ ادو زنان لولی نہاد کہ در نہان بآشنایان در مے آمیختند پدیدار گشتند۔ و آنانکہ خلاف راہ آن بد سرشتان رفتارمے کردند ہموار ہ وقت اندرزوپند بر جان و مال و اہل و آبرو می لرزیدند۔ خلاصہ عرب گروہے بودند کہؔ ہرگز اتفاق نیفتادہ بود پند اندرز گوئی را گوش بکنند۔ و بکلی بے خبر