زایلوا طرق أخلاق الإنسیّۃ، وصاروا کالوحوش البریّۃ، حتی أکلوا لحم الأبناء والإخوان، وخضموا کل جیفۃ وشربوا الدماء کالألبان، وجاوزوا الحد فی المنکرات وأنواع الشقا، وفعلوا ما شاء وا کاوابد الفلا، ولم یزل شعراؤہم یلو!کون أعراض النساء ، وأمراء ہم یداومون علی الخمر والقمار والجفاء۔ وکانوا إذا بخلوا یتلفون حقوق الإخوان والیتامٰی والضعفاء ، وإذا أنفقوا فینفقون أموالہم فی البطر والإسراف والریاء واستیفاء الأہواء۔ وکانوا انسانی خُلقوں سے دور جا پڑے اور وحشی جانوروں کی طرح ہو گئے یہاں تک کہ بیٹوں اور بھائیوں کے گوشت کھائے اور ہر ایک مُردار کو بتمامتر حرص کھایا ۔ اور خون کو یوں پیا جیسا کہ دودھ پیا جاتا ہے اور بدکاریوں اور خدا تعالیٰ کی نافرمانیوں میں حد سے گزر گئے اور جنگلی حیوانوں کی طرح جو کچھ چاہا کیا اور ہمیشہ اُن کے شاعر دریدہ د ہنیسے عورتوں کی بے عزتی کرتے اور اُن کے امراء کا شغل قمار بازی اور شراب اور بدی تھی اور جب بخل کرتے تھے تو بھائیوں اور یتیموں اور غریبوں کا حق تلف کر دیتے تھے اور جب مالوں کو خرچ کرتے تھے تو عیاشی اور فضول خرچی اور زنا کاری اور نفسانی ہوا اورہوس کے پوری کرنے میں خرچ کرتے اور نفس پرستی و از اخلاق نیک بمراحل دور افتادہ۔ سراپا چوں دد ودام گرویدہ و گوشت برادران و پسران را گوارا و نوش جان دیدہ۔ ہر گونہ مردارے را بآز بسیار میخوردند و خون را چون شیرمی آشا میدند۔ در بدکرداریہا و سیاہ کاریہا پااز پایان برون کشیدہ بودند۔ و چوں دوان بیشہ ہر چہ خواستند کردند۔ و شاعران انہا از ہرزہ سرائی و دریدہ دہنی در پوستین زنان می افتادند۔ و توانگران و دارندگان بر قمار بازی ومے خواری و بدی ستیزہ کاری سر فرود آوردہ بودند۔ اگر بخل ور زیدندتلف ساختن حقوق برادران و یتیمان و کمزوران رابموی نہ گرفتند۔ و چوں بر صرف مال دست کشادند داد تن پروری و کامرانی واسراف و ریا ء در دادند۔ وبچہ ہا را