مستغیثا۔ وکذالک ترکوا ضوء النہار واتخذوا اللیل مقامًا، وأدلج کلّ فیہ وأحبّوا ظلامًا۔ وکانوا یہتزّون بہا ہزّۃ من فاز بالمرام، أو کمن أکثبہ قنص فأخذہ من غیر رمی السہام، وکانوا قد علق بقلبہم أنہم یُعطَوْن کلّ مرادہم من
الأصنام، وحسبوا أن اللّٰہ منزّہ عن تلک الاہتمام، وزعموا أنہ أعطی لآلہتہم قوۃ وقدرۃ فی عالم الأرواح والأجسام، وکساہم رداء أُلوہیّتہٖ
اُن ہی کے آگے فریاد کرتا تھا ۔ اور اسی طرح انہوں نے روشنی کو چھوڑا رات کو اپنا قیام گاہ بنایا اور اندھیرے سے پیار کرکے رات میں داخل ہوئے اور بتوں کے ساتھ وہ لوگ ایسے خوش ہوتے تھے جیسا کہ کوئی ایک مراد پا کر خوش ہوتا ہے یا جیسا کہ وہ شخص خوش ہوتا ہے جس کے قابو میں آسانی سے جنگلی شکار چڑھ جاتا ہے اور بغیر تیر مارنے کے پکڑا جاتا ہے۔ اور ان کے دل میں یہ ذہن نشین تھا کہ ان کے بت تمام مُرادیں ان کی دے سکتے ہیں اور وہ لوگ خیال کرتے تھے کہ خداتعالیٰ ان تکالیف سے کہ کسی کو مراد دیوے اور کسی کو پکڑے پاک اور منزّہ ہے اور اس نے یہ تمام قوتیں اور قدرتیں جو عالم ارواح اور اجسام کے متعلق ہیں اُن کے بتوں کو دے رکھی ہیں اور عزت بخشی کے ساتھ الوہیّت کی چادر
ساحت روز روشن برون رفتند و در کنج تنگ و تارشب جا گر فتند۔ و با بتان آنچنان خرم و شاد می زیستند کہ شخصے کہ کام جانش در کنار آمد یا مانند کسے کہ نخچیرے آسان د رچنبراوافتاد و بے انداختن تیرے بر ا و دست یافت۔ یقین انہابود کہ بت ہا توانائے ہر چہ تمامتر بر بر آوردن ہر گونہ کام دارند و خدا را از این چپقلش و دار وگیر کہ کسے را کام روا کند و کسے را بگیرد بر تر و بلندی می پندا شتند۔ وگمان دا شتند کہ خدا ہمہ قدرت و قوت کہ تعلق بعالم اجسام و ارواح دارد بت ہارا سپردہ و از راہ آبرو افزائی و بندہ پروری دیہیم و افسر الوہیت بر فرق انہانہادہ۔