وإنّ رسالتی ہذہ قد خُصّت بقومی الذین أبوا دعوتی، وقالوا أفیکۃ أفّاک وحسبوہا فریتی، وظنوا أنہا عضیہۃ وہتکوا بسوء الظن عرضی وحرمتی، فألجأنی وجدی المتہالک إلی النصیحۃ والمواساۃ، واللّٰہ یعلم ما فی صدور عبادہ وہو علیم بالنّیات، ومُطّلعٌ علی المخفیّات، وخبیر بما فی العالمین۔ وإنی لا أری حاجۃ فی ہذہ الرسالۃ إلی أن
اکتب دلائل الملّۃ الإسلامیۃ، أو أُنمّق نبذًا من فضائل خیر البریۃ، علیہ معظمات السلام والتحیۃ
اور یہ میرا رسالہ میری قوم سے خاص ہے جنہوں نے میری دعوت سے انکار کیا اور یہ کہا کہ یہ ایک کذاب کا جھوٹ ہے اور میری بات کو دروغ سمجھا اور گمان کیا کہ یہ ایک بہتان ہے اور بدظنّی سے میری ہتک عزت کی پس میرے غم اوراندوہ نے جو کمال تک پہنچا ہو ا ہے نصیحت اور غم خواری کی طرف مجھے تحریک کی اور خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی نیتوں کو جانتا اور ان کے پوشیدہ بھیدوں پر اطلاع رکھتا ہے اور وہ تما م دنیا کے حالات سے آگاہ ہے اورمیں اس رسالہ میں اس بات کی طرف کچھ حاجت نہیں پاتا کہ مذہب اسلام کی حقیّت کے دلائل لکھوں یا کچھ فضائل آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بیان کروں۔ کیونکہ اسلام وہ دین بزرگ اور سیدھا
و ایں رسالہ مخصوصاً جہت قوم من است اعنی بجہت انہائے کہ دعوت مرا دست ردّ برسینہ زدند و گفتند کہ ایں دروغ و غل سازی است و گمانید ند کہ آن را از قبل نفس خود ترا شیدم۔ و تا رو پود لاف و گزافی چند را برہم بافیدم و از شدۂ ظن بد در پوستینم افتادندو ہر طور ممکن بودواو تحقیر و ہتک آبروئی من در دادند۔ لاجرم اندوہ و غم من کہ پایانی ندارد مرا بر غمگساری و ہمدردی انہا آمادہ کرد۔ دانائی نہان و آشکار آگاہ بر آہنگ و پسیج بندہ ہائے خود می باشد وہم چنین احوال ہمہ جہان بروےؔ پوشیدہ نیست۔ آنچہ من می بینم احتیاج ندارد۔ در این رسالہ دلائل حقیت اسلام بر نگارم یا اندکے از فضائل و مز اہائے حضرت سرور کائنات را ( صلی اللہ علیہ وسلم )