ملّۃ الإسلام۔ وہذہ لہم کغواث فی لسانین منی ومن فور محبّتی، وزاد الإنجلیزیّۃ والفارسیۃ علیہا بعض أحبّتی، وما وہنوا وما استقالوا بل حفدوا إلی إسعاف مُنیتی، وکلّ ہذا من ربّی کافل خُطّتی۔ لا رادّ لإرادتہ، ولا صادّ لمشیتہ، ولا مانع لفضلہ، ولا کافئ لنصلہ۔ ولقد کادت أنوار الإسلام تغرب، وأنواء ہ تعزب، لولا أن اللّٰہ تدارک الأمّۃ علی رأس ہذہ الماءۃ، وتلافی المحل بمزنۃ الرحمۃ والعاطفۃ، فاشکروا ہذا المولی المحسن إن کنتم مؤمنین
درج کی ہیں اور یہ رسالہ مخالفوں کے لئے ایک فریاد رس ہے جس کو میں نے جوش محبت سے دو زبانوں میں لکھا ہے۔ اور میرے بعض دوستوں نے فارسی انگریزی زبان کو ان پر زیادہ کیا ۔ اور وہ نہ سُست ہوئے اور نہ اس کام سے معافی چاہی بلکہ میری آرزو کے پورا کرنے کے لئے دوڑے ۔ اور یہ سب کچھ میرے خدا کے فضل سے ہے ۔ اس کے ارادے کو کوئی ردّ نہیں کر سکتا اور اس کی مشیت کو کوئی روک نہیں سکتا ۔ اس کے فضل کو کوئی منع کرنیوالا نہیں ۔ اس کی تلوار کو کوئی پیچھے ہٹانے والا نہیں اور اگر وہ اس امت کا صدی کے سر پر تدارؔ ک نہ کرتا اور قحط کے دنوں کی اپنی رحمت اور مہربانی سے تلافی نہ فرماتا تو اسلام کے تمام نور ڈوب چکے تھے اور دینی بارشوں کے ستارے دور چلے گئے تھے۔ سو اگر تم مومن ہو تو اس محسن آقا کا شکر کرو
درج کردم۔ فی الحقیقت این رسالہ مخالفان را بمنزلہ فریاد رسی است کہ از فرط جوش محبت در دو لسان عربی واردو ترقیم کردم و بعضے از دوستا نم لسان انگلیسی و پارسی را بر آں افزودند و کسل و جبن را بخود راہ ندادند ونہ از قبول این فرمایش پوزش نمودند بل از برائے بر آوردن کام من باپا ئے سر بشتا فتند۔ وایں ہمہ از محض فضلِ پروردگا رمن است کسی را زہرۂ آن نہ کہ سنگے در راہ ارادہ اش گذارد و یارائی آن نہ کہ مشیت وی را دست ممانعہ در پیش آرد۔ فضل وی راکسے منع کند خیال محال است و تیغ بران وی را احدے سپرد فع پیش کند کرا مجال۔ واگر او بر سر صد ایں امت را در نیا فتی ودر آوانِ قحط از رحمت و فضل تدارک مافات نہ فرمودی البتہ کشتئ اسلام در چار موجۂ فنا فرو رفتہ و تاریکی جائے نورش را گرفتہ و ستارہ ہائے باران دین بعید شدہ بود۔ پس اگر بوئے از ایمان دارید باید بہزار جان تشکر آن مولا ئے محسن بجا آرید۔