وما نبع فی زمان ملامح السراب من عین فی سربی، بإذن مولیً مُربّی۔ وشرعتہا یوم الخمیس وختمتہا بکرۃ عروبۃ من غیر أن أکابد الصعوبۃ۔ وإنی ألّفت ہذہ الرسالۃ إتماما للحجّۃ، وبادرت إلیہا شفقۃ علی الغافلین من ہذہ الأمّۃ، ومثلتُ تحنّنًا علی الضعفاء من ہذہ العصبۃ، وإنی أری فی دعوتی صلاح الرجال منہم والنسوۃ، ولو کانت رابعۃ بنسکہا والعفّۃ۔ وعوّضتہا عما أشاع المخالفون فی ہذہ الأیام، وأودعتہا من نکات المعارف ودقائق
مجھ کو ملی ہے ۔ اور بیان اس چشمہ کا ہے جو سراب کی چمک کے زمانہ میں میرے پروردگار کے اذن سے میرے دل میں سے پھوٹا اور میں نے اس کو جمعرات کے دن شروع کر کے جمعہ کی صبح پورا کر دیا بغیر اس کے جو مجھ کو کوئی تکلیف پہنچی اور میں نے اس رسالہ کو حجت کے پوری کرنے کیلئے تالیف کیا ہے۔ اور اس اُمت کے غافلوں کی ہمدردی کے لئے میں نے جلدی سے یہ کام کیا اور میں خادموں کی طرح اس کام کیلئے اسلامی جماعت کے کمزوروں کے لئے کھڑا ہوا۔ کیونکہ میری دعوت کے قبول کرنے میں ان کے زن و مرد کی بھلائی ہے۔ اگرچہ اپنی عباد ت اور زہد کے ساتھ رابعہ وقت ہوں ۔ اور یہ ان تحریروں کا بدل ہے جو ان دنوں میں مخالفوں کی طرف سے نکلیں۔ اور اس میں مَیں نے عمدہ عمدہ ملّت اسلامی کے نکتے اور باریک باتیں
صحبت ازان چشمہ دارد کہ در زمان سراب نشان باذن پروردگار جہان وجہا نیان از تگ دل من در جوش آمدہ وروز پنجشنبہ شروع دران کردم۔ و پگاہ روز آدینہ بانجام رسانیدم۔ و درایں کا رہیچ گونہ زحمتی پیش من نیامد۔ وایں رسالہ را جہت اتمام ُ حجۃ تالیف دادم و شفقت و رحمت بر ناداناں ایں امت رگ جانم را بحرکت آورد تا درایں امر باگام زودی رفتا ر نمودم۔از کمال رافت چون شاگردان و نوکران جہت ہمدردی نا توانانِ ملّت برپا استادم چہ بہبود مردان و زنان البتہ بستہ بہ قبول دعوت من است اگرچہ کسی از قرار زہد و عبادت رابعۂ وقت ہم باشد۔ و ایں رسالہ درازائی آن نوشتہ ہامی باشد کہ مخالفان امروز رو زیر روئے کار آوردہ اند۔ من در دُرج این رسالہ دُر ہائے شاہو ار نکات اسلام ولآلی مکنونہ معارف و دقائق