شوقا وصارت أشکالہا ککؤوس المدام، وما أعظم شأن رسول ما خلا اسمہ من وصیّۃ للامّۃ، بل ملاء من تعلیم الطریقۃ، ویہدی إلی طرق المعرفۃ، وأُشیر فی اسمیہ إلٰی مُنتہی مراحل سُبُل حضرۃ العزّۃ، واومی إلی نقطۃ ختم علیہا سلوک أہل المعرفۃ۔ اللّٰہم فصلّ علیہ وسلم، وآلہ المطہرین الطیبین، وأصحابہ الذین ہم أسود مواطن النہار و رہبان اللیالی ونجوم الدین،
رضی اللّٰہ عنہم أجمعین.
أمّا بعد۔ فہذہ رسالۃ فیہا بیان
ما استبضعت متاعًا من ربّی
اور ان کی شکلیں یوں ہو گئیں جیسا کہ شراب سے بھرے ہوئے کوزے ہوتے ہیں اور اس رسول کی کیا ہی بلند شان ہے جس کا نام بھی وصیّت سے خالی نہیں ۔ بلکہ خدا جوئی کے طریقہ کی اس سے تعلیم ملتی ہے اور معرفت کی راہوں کی طرف وہ ہدایت کرتا ہے۔ اور اس میں اس نقطہ کی طرف اشارہ ہے جس پر اہل معرفت کے سلوک ختم ہوتے ہیں اور نیز خدا شناسی کے آخری مقام کی طرف اشارہ ہے۔ پس اے خدا ! اس نبی پر سلام اور درود بھیج اور اس کے آل پر جو مطّہر اور طیب ہیں اور اس کے اصحاب پر جو دن کے میدانوں کے شیر اور راتوں کے راہب ہیں اور دین کے ستارے ہیں۔ خدا کی خوشنودی ان سب کے شامل حال ہے ۔
اس کے بعد واضح ہو کہ یہ ایک رسالہ ہے جس میں بیان اس متاع کا ہے جو بطور تجارتی مال کے میرے رب سے
روانہائے ما پدید آمد ودلہا از شوق لبریز و شکل انہا بطوری شد کہ گوئے جامہائے پُر از آب آتشین می باشند۔فرخندہ رسولی وحبّذا شان بلندوی کہ نام پاکش ہم مشتمل بر وصیت و نصیحت امہ میبا شد۔ نہ تنہا ہمین قدر بلکہ آن نام مبارک تعلیم طریق ہائے حق جوئی و خدا پثروہی و ایمائی بآں نقطہ کند کہ سلوک اہل معرفت بد انجا بآ خر رسد و مقام آخری خدا شناسی آں باشد۔ پس اے خدا برآں نبئکریم سلام و درود بفرست و بر آل او کہ پاکیزہ اندو بر اصحاب او کہ درمیدان روز شیران بیشۂ دغاو در پس پردۂ شب تاریک بیدار دلان رہبان نماد نجوم بزم افروز ملّت بیضا بودند۔ خدائے رحیم افسر خوشنودی بر فرق ہمگنان پوشانید۔
پوشیدہ نماند کہ ایں رسالہ بیان آن بضاعت را کند کہ بطور مالِ تجارۃ از خد ا برمن ارزانی شدہ و