ولا یتم توحید نفس إلَّا بعد أن یری فی وجودہ تحقق جنبیہ۔ ولا تصیر نفس مطمئنۃ، ولا تتنزل علی قلب سکینۃ، إلَّا أن یکون سابحا فی ہذہ اللجّۃ، ولا ینجو أحدٌ من مکائد الأمّارۃ۔ إلَّا أن یحصل لہ حظٌ من ہذہ المرتبۃ۔ والذین بعدوا منہا وما أخذوا منہا حصّۃ ترہقہم ذلّۃ فی ہذہ ویوم القیامۃ۔ ہم الذین یمشون علی الأرض کغثاء علی السیل، کأنّما أُغشیت وجوہہم قطعًا من اللّیل، یتولدون محجوبین ویعیشون محجوبین ویموتون محجوبین۔ أولئک الذین أعرضت قلوبہم اور کسی نفس میں کامل طور پر توحید پیدا نہیں ہوتی جب تک کہ یہ دونوں پہلو اس میں متحقق نہ ہوں اور کوئی نفس مطمئن نہیں ہو سکتا اور کسی دل پر سکینت نازل نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ اس دریا میں تیرنے والا نہ ہو۔ اور کوئی شخص نفس امارہ کی مکاریوں سے نجات نہیں پا سکتا جب تک کہ اس کو یہ مرتبہ حاصل نہ ہو۔ اورجو لوگ اس مرتبہ سے دور رہے اور کوئی حصہ اس میں سے نہ لیاان کو اس دنیا اور قیامت میں ذلت پہنچے گی۔ وہ وہی ہیں جو سیلاب کے خس و خاشاک کی طرح زمین پر چلتے ہیں۔ اور ایسے بد رَو ہیں کہ گویا ایک ٹکڑا رات کا اُن کے منہ پر ہے ۔ وہ پردوں میں پیدا ہوتے ہیں اور پردوں ہی میں جیتے ہیں اور پردوں میں ہی مرتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے دل خد اتعالیٰ کی و ہیچ نفسے از نفوس را نرسددم از توحید کامل بزند تا وقتیکہ ایں ہر دو شق در وے متحقق نگرد د و احدے اطمینان نیابد و سکینت بروے فرود نیاید تا قدرت بر شنا کردن در ایں دریا دستش ندہد۔ و نمی شود کسی ایمن از مکار ی ہائے نفس ا مّا رہ بنشیند تا بایں مرتبہ فائز نشود۔ و انہائیکہ ازیں مرتبت حرمان نصیب بماندند و بہرۂ ازاں نگر فتند درد نیا وعقبیٰ ہمدوش مذلت و ہمکنار فضیحت خواہند بود۔ امثالؔ ایں ناکسان در رنگ خس و خاشاک در راہ سیل رفتار کنندو در زشت روئی بمثابۂ می باشند کہ گوئی پارہ ہائے شب تار برقع دار بر رُخ نازیبائے انہا پو شانیدہ شدہ است۔ محجوب زیندو محجوب میرند۔ اینہاکسانے می باشند کہ