والدیار، ومعناہ أنہ حُمّد حمدًا کثیرًا واتفق علیہ الأخیار من غیر الإنکار۔ وإن ہذین الاسمین قد وُضعا لنبیّنا من یوم بناء ہذہ الدار، ثم یُعطیان للذی صار لہ کالاظلال والآثار، ومن أُعطی من ہذین الاسمین بقبس فقد أُنیر قلبہ بأنواع الأنوار، وقد جری علی شفتی الرسول المختار۔ أن اللّٰہ یرزق منہما عبدا لہ فی آخر الزمان کما جاء فی الأخبار، فاقرؤا
ثم فکّروا یا أولی الأبصار۔
فالغرض أن الأحمدیۃ والمحمدیۃ أمر جامع دُعِیَ الموحّدون إلیہ
جاتا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ بہت تعریف کیا گیا ۔اور یہ دونوں اسم ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے ابتداءِ دنیا سے وضع کئے گئے ہیں۔ پھر بعد اس کے اس شخص کو بطور مستعا ر دیئے جاتے ہیں جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے بطور اظلال و آثار ہو۔ اور جس شخص کو ان دونوں ناموں سے ایک چنگاری دی گئی تو اس کا دل کئی قسم کے نوروں سے روشن کیا گیا۔ اور رسول مختار کے لبِ مُبارک پر جاری ہو اتھا کہ خدا تعالیٰ آخری زمانہ میں ایک اپنے بندے میں یہ دونوں صفتیں جمع کر دے گا جیسا کہ حدیثوں میں وارد ہے۔ پس اے دانش مندو ! اِن حدیثوں کو پڑھو اور سوچو۔
اب غرض یہ ہے کہ احمدیت اور محمدیت ایک ایسا امر جامع ہے کہ تمام موحّد اس کی طرف بلائے گئے ہیں
ومعنی این کلمہ است بسیار ستودہ شد ہ۔ ایں ہر دو نام برائے نبی ما ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ازآغاز آفرینش موضوع شدہ وباز مستعارً اایں ہردونام بکسے ہم کرامت می شود کہ از آن نبی کریم (صلی اﷲ علیہ وسلم) بمنزلہ ظل واثر باشد۔ و ہر کہ او را از این دونام اخگری درکار کردندد ل اوبگو ناگون نور ہاروشنی یافت۔ وبر زبان وحی ترجمان آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وسلم ) رفتہ کہ خد اتعالیٰ شانہٗ در زمانہ پسین بندۂ را از بندگان خود بہ تحلیہ ایں دو نام و تزیین این دو صفت ممتاز و مفتخرخواہد کرد پس ای دانشمندان احادیث بخو انید و نیکو اندیشہ بفرمائید۔
خلاصہ احمدیت و محمدیت امر جامعی می باشد کہ ہمہ موحّدین بسوی آں خواندہ شدہ۔