إلَّا بعد الاحتراق فی نار محبّۃ المعبود۔فمن ألقی نفسہ فی ہذہ النار، فہو یحمد اللّٰہ بقلب موجع وسرمحو فی الحبیب المختار۔وہو الذی یُدعی فی السماء باسم أحمد ویُقرّب ویُدخَل فی بیت العزّۃ وقصارۃ الدار، وہی دار العظمۃ والجلال یُقال استعارۃ أن اللّٰہ بناہا لذاتہ القہار، ثم یُعطیہ لحمّاد وجہہ فیکون لہ کالبیت المستعار، فیُحمد ہذا الرجل فی السماء والأرض بأمر اللّٰہ الغفّار، ویُدعیٰ باسم مُحمّد فی الأفلا ک والبلاد جب تک کہ ایک شخص آتشِ محبتِ معبود حقیقی میں جل نہ جائے اور جو شخص اُس آگ میں اپنے تئیں ڈال دے پس وہی اپنے درد مند دل اور اس سر سے جوخدا میں محو ہے خدا کی تعریف کرے گا۔ اور وہ وہی شخص ہے جس کو آسمان میں احمد کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور قریب کیا جاتا ہے اور عزت کے گھر اور قصارۃ الدار میں داخل کیا جاتا ہے اور وہ عظمت اور جلال کا گھر ہے جو بطور استعارہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا نے اس کو اپنی ذات کیلئے بنایا پھر اس گھر کو بطور مستعار اُس کو دے دیتا ہے جو اس کی ذات کا ثناخوان ہو۔ پس یہ شخص زمین اور آسمان میں خداتعالیٰ کے حکم کے ساتھ تعریفؔ کیا جاتا ہے۔ اور آسمانوں اور زمین میں محمد کے نام سے پکارا لباس ہستی نمی پو شد تاخر من بو دکسے از آتشِ محبت معبودحقیقی پاک نسو زد۔ ہر کہ برسوختن درایں آتش تن دردہد او تواند بادل درد مندو با سرّے کہ محوحبیب مختار شدہ ترانہ ریز حمد بشود۔ ہماں کس است کہ بر آسمان اورا احمد گویند۔ او نزدیک کردہ شودو دربارگاہ عزت وایوان مقصود بار یابد و آن مکانِ عزّت و جلال است کہ از روئے استعارہ تواں گفت خدا آنرا جہت ذاتِ خویش بنا ساختہ و باز خدا آن خانہ را بطور مستعار بکسے مسترد کند کہ ثنا خوان اوست۔ پس آں کس با ذنِ الٰہی در آسمان و زمین ستودہ ودر آسمان و زمین بنام محمد یاد کردہ شود