یُنذر الغافلین ویصدم قلوبہم بوعید مُدی القطعیّۃ، وما تعلم ما الحمد والتحمید، ولِمَ علی مقامہ الربّ الوحید۔وکفی لک من عظمتہ أن اللّٰہ ابتدأ بہ کتابہ الکریم، لیُبیّن للناس عظمۃ الحمد ومقامہ العظیم۔ وأنّہ لا یفور من قلبٍ إلَّا بعد المحویّۃ والذوبان، ولا یتحقق إلَّا بعد الانسلاخ ودوس أہواء النفس الثعبان، ولا یجری علی لسان إلَّا بعد اضطرام نار المحبۃ فی الجنان بل لا یتحقق إلَّا بعد زوال أثر الغیر من الموہوم والموجود، ولا یتولّد
کو اس دھمکی سے کوفتہ کرے کہ قطع تعلق کی کاردیں تیار ہیں ۔ اور تجھے کیا خبر ہے کہ حمد کہتے کس کو ہیں اور کیوں اس کا بلند پایہ ہے اور اُس کی عظمت سمجھنے کے لئے تجھے یہ کافی ہے کہ خدا نے قرآن شریف کی تعلیم کو حمد سے ہی شروع کیا ہے تا لوگوں کو حمد کے مقام کی بلندی سمجھاوے جو کسی دل میں سے بجز گدازش اور محویت کے جوش نہیں مار سکتی۔اور اُسی وقت متحقق ہوتی ہے جب کہ مار نفسِ امّارہ کچلا جائے اور نفسانی چولہ اتار لیاجائے اور یہ حمد کسی زبان پر جاری نہیں ہوسکتی بجز اس کے کہ پہلے دل میں محبت کی آگ بھڑکے ۔ بلکہ یہ وجود پذیر ہی نہیں ہو سکتی جب تک کہ غیر کا نام و نشان بکلّی زائل نہ ہو جائے اور پیدا نہیں ہو سکتی
کہ نزدیک است کار و قطع تعلق پارہ پارہ شان سازد۔ توچہ دانی حمد چیست و از چہ رو ایں پایۂ بلندی وے را حاصل است۔ بزرگئ وے را از ینجا تواں دریافت کہ خدائے تعالیٰ تعلیم قرآن را آغاز از حمد کرد تا مردم بر مقام بلندش آگا ہ شوند و فوارۂ حمد از دل احدے جوش نزند تا محویت و گدازش میسر نیاید۔ ودر وقتے سربر زند و متحقق شود کہ ما ر نفسِ امّارہ پامال و بکلی بدر آمدن از پوست انانیت و نفسانیت دست دہد۔ و ایں ستایش ابدا نمی شود بر زبانی رواں شود تا وقتیکہ زبانۂ محبت در دلی سر برنزند بل ممکن نیست صورت وجود بپزیرد تا اسم و رسم غیر بالمرّہ ناپید نشود۔ و ہرگز