آناء اللیل یصرخون ویتأوّہون، ولا یعلم أحد إلی أی جہۃ یُجذبون ویُقلّبون۔ یُصبّ علیہم مصائب فبصدقہم یتحمّلون، ویُدخلون فی نیران فیُقال: سلام فیُحفظون ویُعصمون۔ أولئک ہم الحامدون حقّا وأولئک ہم المقدسون والنجیّون، فطوبی لہم ولمن صحبہم فإنہم المنفردون، والشافعون المشفّعون۔ وہذہ مرتبۃ لا تُعطی إلَّا لمحبوبی الحضرۃ، وإنما جاء الإسلام لتبیین تلک المنزلۃ لیُخرج الناس من وہاد المنقصۃ، ویوصلہم إلی حظیرۃ القدس ویہدی إلی مقام السعادۃ، و وقتوں میں فریاد کرتے اور آہیں مارتے ہیں ۔ کوئی نہیں جانتا کہ کس طرف کھنچے جاتے اور پھیرے جاتے ہیں ۔ ان پر مصیبتیں پڑتی ہیں اور وہ برداشت کرتے ہیں ۔ آگ میں داخل کئے جاتے ہیں ۔ پس کہا جاتا ہے کہ سلام پس بچالئے جاتے ہیں ۔ وہی سچے ثناخوان اور خدا کے مقرب اور ہمراز ہیں۔ اور ان کو خوشخبری ہو اور ان کے ہم صحبتوں کو کیونکہ وہ شفاعت کرنے والے اور شفاعت قبول کئے گئے ہیں۔ اور یہ وہ مرتبہ ہے جو بجزدرگاہ کے پیاروں کے اور کسی کو نہیں ملتا۔اور اسی کے بیان کے لئے اسلام آیا ہے تاکہ نقصان کے گڑھے سے لوگوں کو نکالے اور تقدس کے احاطے میں پہنچاوے اور سعادت کے مقام تک رہبری کرے اور غافلوں پس محبوب خود را یاد آورند۔ و از چشم سر اشک روان سازند۔ ودر پردۂ شب نالہاکشند و آہ زنند۔ کسی بر سر وقت شاں آگاہ نہ کہ بکدام طرف کشیدہ شوند۔ مصیبتہا بر سر اوشاں فرو ریز د وبرمی تابند۔ در آتش انداختہ شوند پس گفتہ شود سلام در زمان رستگار و ایمن گردند۔ حقیقۃً اوشان ثناگویان خدا و نزدیک و ہمراز دیند۔ و ایں مرتبہ ایست کہ غیر محبوبان الٰہی را دست بہم ند ہد۔ اسلام جہت کشودن ہمیں راز آمدہ کہ از مغاک ریان مردم را بیرون کشد و در ساحت تقدس رساندو تا بمقامِ سعادت کشاند۔ و غافلان را از راہ ایں سر زنش کوفت و آزارے رساند