کریںؔ تو وہ اعتراضات طاعون کے کیڑوں کی طرح روز بروز بڑھتے جائیں گے اور ہزارہا شبہات لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوجائیں گے اور اگر گورنمنٹ ایسے بدزبان کو کچھ سزا بھی دے تو وہ شبہات اس سزا سے کچھ کم نہیں ہو سکتے۔ دیکھو یہ لوگ جو اسلام پر اعتراض کرتے ہیں مثلاً جیسے مصنف امہات المومنین اور عماد الدین اور صفدر علی وغیرہ ان کے مرتد ہونے کا بھی یہی سبب ہے کہ اُس وقت نرمی ا ورہمدردی سے کام نہیں لیا گیا بلکہ اکثر جگہ تیزی اور سختی دکھلائی گئی اور ملائمت سے ان کے شبہات دور نہیں کئے گئے۔ اس لئے ان لوگوں نے اسلامی فیوض سے محروم رہ کر ارتداد کا جامہ پہن لیا۔ اب اکثر اسلام پر حملہ کرنے والے یہی لوگ ہیں جو قوم کی کم توجہی سے پریشان خاطر ہو کر عیسائی ہوگئے۔ ذرہ آنکھ کھول کر دیکھو کہ یہ لوگ جو بدزبانی دکھلا رہے ہیں یہ کچھ یورپ سے تو نہیں آئے اسی ملک کے مسلمانوں کی اولاد ہیں جو اسلام سے انقطاع کرتے کرتے اور عیسائیوں کے کلمات سے متاثر ہوتے ہوتے اس حد تک پہنچ گئے ہیں۔ درحقیقت ایسے لاکھوں انسان ہیں جن کے دل خراب ہو رہے ہیں۔ ہزار ہا طبیعتیں ہیں جو بُری طرح بگڑ گئی ہیں۔ سو بڑا امر اور عظیم الشان امر جو ہمیں کرنا چاہئیے وہ یہی ہے کہ ہم نظر اٹھا کر دیکھیں کہ ملک مجذوموں کی طرح ہوتا جاتا ہے اور شبہات کے زہریلے پودے بے شمار سینوں میں نشوونما پاگئے ہیں اور پاتے جاتے ہیں۔ خداتعالیٰ ہمیں تمام قرآن شریف میں یہی ترغیب دیتا ہے کہ ہم دین اسلام کی حقیقی حمایت کریں اور ہمارا فرض ہونا چاہئیے کہ مخالفوں کی طرف سے ایک بھی ایسا اعتراض پیدا نہ ہو جس کا ہم کمال تحقیق اور تنقیح سے جواب دے کر حق کے طالبوں کی پوری تسلی اور تشفی نہ کریں۔ لیکن اس جگہ طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف اتنا ہی کرنا چاہئیے کہ رسالۂ امہات المومنین کے چند اعتراضات کا جواب دیا جائے؟ سو میں اس کے جواب میں بڑے زور کے ساتھ یہ مشورہ پیش کرتا ہوں کہ موجودہ زہریلی ہوا کے دور کرنے کے لئے صرف اسی قدر کارروائی ہرگز کافی نہیں ہے اور اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ ہم کئی گندی نالیوں میں سے صرف