معقولؔ جواب سے منہ پھیر کر صرف سزا دلانے کی فکر میں لگے رہیں۔ گو یہ سچ ہے کہ ہماری گورنمنٹ محسنہ کسی جرم کے ثبوت پر پادریوں کی ہرگز رعایت نہیں کر سکتی مگر ہم اگر اپنی تمام کامیابی صرف یہی سمجھ لیں کہ گورنمنٹ کے ہاتھ سے کسی کو کچھ گوشمالی ہو جائے تو اس خیال میں ہم نہایت غلطی پر ہیں۔ اے سادہ طبع اور بے خبر لوگو! ان وساوس سے مسلمانوں کی ذریّت خراب ہوتی جاتی ہے۔ لہٰذا ضروری اور مقدم امر یہ ہے کہ سب تدبیروں سے پہلے اسلام کی طرف سے ان اعتراضات کا جواب نکلے جن سے ہزاروں دل گندے اور خراب ہوگئے اور ہوتے جاتے ہیں۔ ابتدا میں یہی پالیسی نرمی اور درگذر کی پادریوں نے بھی اختیار کی تھی۔ ان کے مقابل پر لوگ تقریری مقابلہ میں بہت سختی کرتے تھے۔ بلکہ گالیاں دیتے تھے۔ مگراُن لوگوں نے اُن دنوں میں گورنمنٹ میں کوئی میموریل نہ بھیجا اور اسی طرح برداشت سے اپنے وساوس دلوں میں ڈالتے گئے یہاں تک کہ اس تدبیر سے ہزارہا نو عیسائی ہمارے ملک میں پیدا ہوگئے۔ ہم اس بات کے مخالف نہیں ہیں کہ گورنمنٹ سے ایک عام پیرایہ میں یہ درخواست ہو کہ مناظرات اور تالیفات کے طریق کو کسی قدر محدود کر دیا جائے اور ایسی بے قیدی اور دریدہ دہانی سے روک دیا جائے جس سے قوموں میں نقض امن کا اندیشہ ہو بلکہ اول محرک اس امر کے ہم ہی ہیں۔ اور ہم نے اپنے سابق میموریل میں لکھ بھی دیا تھا کہ یہ احسن انتظام کیونکر اور کس تدبیر سے ہو سکتا ہے۔ ہاں ہم ایسے میموریل کے سخت مخالف ہیں جو عام پیرایہ میں نہیں بلکہ ایک ایسے شخص کی سزا کی نسبت زور دیا گیا ہے جس کے اصل اعتراضات کا جواب دینا ابھی ہمارے ذمہ ہے کیونکہ قرآن کریم کی تعلیم کے موافق ہمارا فرض یہ تھا کہ ہم بدزبان شخص کی بدزبانی کو الگ کر کے اس کے اصل اعتراضات کا جواب دیتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ 33۱؂ ۔کیونکہ یہ امر نہایت پُرخطر اور خوفناک ہے کہ ہم معترض کے اعتراضوں کو اپنی حالت پر چھوڑ دیں اور اگر ایسا