کو ؔ لکھا ہوا پائیں گے۔ ہم نہیں کہتے کہ یہ انجمن عمداً اس فرض کو جو اس کے اپنے وعدے سے مؤکّد ہے اپنے سر پر سے ٹالتی ہے بلکہ واقعی امر یہ ہے کہ انجمن موجودہ یہ لیاقت ہی نہیں رکھتی کہ دین کے معظمات امور میں زبان ہلا سکے یا وہ وساوس اور اعتراض جو عیسائیوں کی طرف سے مدت ساٹھ سال سے پھیل رہے ہیں کمال تحقیق اور تدقیق سے دور کر سکے یا اس زہریلی ہوا کو جو ملک میں پھیل رہی ہے کسی تالیف سے کالعدم کر سکے۔ کاش بہتر ہوتا کہ یہ انجمن دینی امور سے اپنا کچھ تعلق ظاہر نہ کرتی اور ان کی فہم اور عقل کا صرف پولیٹیکل امور کے حدود تک دورہ رہتا۔
ہمیں ۶؍ مئی ۱۸۹۸ ء کے پرچہ ابزرور کے دیکھنے سے یہ نومیدی اور بھی بڑھ گئی کیونکہ اس کے ایڈیٹر نے جو انجمن کی طرف سے وکالت کر رہا ہے صاف لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ رسالۂ امہات المومنین کا جواب لکھنا ہرگز مصلحت نہیں ہے اسی کو بہت کچھ سمجھ لو جو انجمن نے کر دکھایا یعنی یہ کہ گورنمنٹ میں میموریل بھیج دیا۔ ابزرور کی تحریر پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف ایڈیٹر کی ہی رائے نہیں ہے بلکہ انجمن کا یہی ارادہ ہے کہ اس رسالہ کا جواب ہرگز نہیں دینا چاہئیے۔ اب عقلمند سوچ لیں کہ ایسی تدابیر سے اسلام کو کیا فائدہ پہنچتا ہے۔ اور اگر گورنمنٹ عالیہ سخت سے سخت اس شخص کو سزا بھی دیدے جس نے ایسی کتاب شائع کی تو وہ زہریلا اثر جو اُن مفتریات کا دلوں میں بیٹھ گیا وہ کیونکر اس سے دور ہو جائے گا۔ بلکہ جہاں تک میں خیال کرتا ہوں اس کارروائی سے اور بھی وہ بد اثر لوگوں میں پھیلے گا۔
میں بار بار کہتا ہوں کہ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ پادریوں کی کتابوں کا بد اثر دلوں سے محو کر دیں تو یہ طریق جو انجمن نے اختیار کیا ہے ہرگز اس کامیابی کے لئے حقیقی طریق نہیں ہے۔ بلکہ ہمیں چاہئیے کہ وہ تمام اعتراض جمع کر کے نہایت برجستگی اور ثبوت سے بھرے ہوئے لفظوں کے ساتھ ایک ایک کا مفصل جواب دیں اور اس طرح پر دلوں کو ان ناپاک وساوس سے پاک کر کے اسلامی روشنی کو دنیا پر ظاہر کریں۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس زمانہ میں جو پادریوں اور فلاسفروں کے وساوس سے تباہ ہو رہا ہے یہ طریق سخت ناجائز ہے کہ ہم