لکھنےؔ کے لئے منتخب ہونا چاہئیے کیونکہ جس قدر عیسائیوں نے جان توڑ کر اس رسالہ کی اشاعت کی ہے اور قانونی مواخذہ کی بھی کچھ پرواہ نہ رکھ کر ہر ایک معزز مسلمان کو ایک کتاب بلا طلب بھیجی اور تمام مسلمانان برٹش انڈیا کا دل دُکھایا۔ اس تمام کارروائی سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ آخری ہتھیار انہوں نے چلایا ہے اور غایت درجہ کے سخت الفاظ جو اس رسالہ میں استعمال کئے گئے ہیں ان کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ تا مسلمان اشتعال میں آکر عدالتوں کی طرف دوڑیں یا گورنمنٹ عالیہ میں میموریل بھیجیں اور اس طریق مستقیم پر قدم نہ ماریں جو ایسے مفتریانہ الزامات کا حقیقی اور واقعی علاج ہے۔ چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ یہ مکر ان کا چل گیا ہے اور مسلمانوں نے اگر اس کمینہ اور نجس کتاب کے مقابلہ میں کوئی تدبیر سوچی ہے تو بس یہی کہ اس کتاب کی شکایت کے بارے میں گورنمنٹ میں ایک میموریل بھیج دیا ہے۔ چنانچہ انجمن حمایت اسلام لاہور کو یہی سوجھی کہ اس کتاب کے بارے میں گورنمنٹ کے آگے نالہ و فریاد کرے۔ مگر افسوس کہ ان لوگوں کو اس بات کا ذرہ خیال نہیں ہوا کہ حضرات پادری صاحبوں کا یہی تو مدعا تھا تا اس معکوس طریق کے اختیار کرنے سے مسلمان لوگ اپنے ربّ کریم کی اس تعلیم پر عمل کرنے سے محروم رہیں کہ3 3۔۱؂ اس افسوس اور اس دردناک خیال سے جگر پاش پاش ہوتا ہے کہ ایک طرف تو ایسی کتاب شائع ہو جس کے شائع ہونے سے جاہلوں کے دلوں میں زہریلے اثر پھیلیں اور ایک دنیا ہلاک ہو اور دوسری طرف اس زہریلی کارروائی کے مقابل پر یہ تدبیر ہو کہ جو لوگ مسلمانوں کا ہزار ہا روپیہ اس غرض سے لیتے ہیں کہ وہ دشمنان دین کا جواب لکھیں ان کی فقط یہ کارروائی ہو کہ دو چار صفحہ کا میموریل گورنمنٹ میں بھیج کر لوگوں پر ظاہر کریں کہ جو کچھ ہم نے کرنا تھا کر دیا۔ حالانکہ صدہا مرتبہ آپ ہی اس امر کو ظاہر کر چکے ہیں کہ ان کی انجمن کے مقاصد میں سے پہلا مقصد یہی ہے کہ وہ ان اعتراضوں کا جواب دیں گے جو مخالفوں کی طرف سے وقتاً فوقتاً اسلام پر کئے جائیں گے۔ چنانچہ جن لوگوں نے کبھی ان کا رسالہ انجمن حمایت اسلام لاہور دیکھا ہوگا وہ اس رسالہ کے ابتدا میں ہی اس وعدہ