اس کے علاوہ اور بھی۔ جس کی کسی قدر فہرست حاشیہ میں دی گئی ہے۔ دیکھو حاشیہ ۱؂ متعلق صفحہ۶ شرط ہشتم) نویںؔ شرط تقریر یا تالیف کیلئے فراغت نفس اور صرف دینی خدمت کے لئے زندگی کا وقف کرنا ہے۔ کیونکہ یہ بھی تجربہ میں آ چکا ہے کہ ایک دل سے دو مختلف کام ہونے مشکل ہیں۔ مثلاً ایک شخص جو سرکاری ملازم ہے اور اپنے فرض منصبی کی ذمہ واریاں اس کے گلے پڑی ہوئی ہیں اگر وہ دینی تالیفات کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو علاوہ اس بددیانتی کے جو اس نے اپنے بیچے ہوئے وقت کو دوسری جگہ لگا دیا ہے ہرگز وہ اس شخص کے برابر نہیں ہو سکتا جس نے اپنے تمام اوقات کو صرف اسی کام کے لئے مستغرق کر لیا ہے حتّٰی کہ اُس کی تمام زندگی اُسی کام کے لئے ہوگئی ہے۔ دسویں شرط تقریر یا تالیف کے لئے اعجازی طاقت ہے کیونکہ انسان حقیقی روشنی کے حاصل کرنے کیلئے اور کامل تسلی پانے کے لئے اعجازی طاقت یعنی آسمانی نشانوں کے دیکھنے کا محتاج ہے اور وہ آخری فیصلہ ہے جو خداتعالیٰ کے حضور سے ہوتا ہے۔ لہٰذا جو شخص اسلام کے دشمنوں کے مقابل پر کھڑا ہو اور ایسے لوگوں کو لاجواب کرنا چاہے جو ظہور خوارق کو خلاف قدرت سمجھتے ہیں یا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خوارق اور معجزات سے منکر ہیں تو ایسے شخص کے زیر کرنے کے لئے امت محمدیہ کے وہ بندے مخصوص ہیں جن کی دعاؤں کے ذریعہ سے کوئی نشان ظاہر ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ مذہب سے آسمانی نشانوں کو بہت تعلق ہے اور سچے مذہب کے لئے ضروری ہے کہ ہمیشہ اس میں نشان دکھلانے والے پیدا ہوتے رہیں۔ اور اہل حق کو خداتعالیٰ صرف منقولات پر نہیں چھوڑتا اور جو شخص محض خداتعالیٰ کے لئے مخالفوں سے بحث کرتا ہے اس کو ضرور آسمانی نشان عطا کئے جاتے ہیں۔ ہاں یقیناً سمجھو کہ عطا کئے جاتے ہیں تا آسمان کا خدا اپنے ہاتھ سے اس کو غالب کرے اور جو شخص خداتعالیٰ سے نشان نہ پاوے تو میں ڈرتا ہوں کہ وہ پوشیدہ بے ایمان نہ ہو۔ کیونکہ قرآنی وعدہ کے موافق آسمانی مدد اس کے لئے نازل نہ ہوئی۔ یہ دس شرطیں ہیں جو ان لوگوں کے لئے ضروری ہیں جو کسی مخالف عیسائی کا ردّ لکھنا چاہیں یا زبانی مباحثہ کریں۔ اور ان ہی کی پابندی سے کوئی شخص رسالہ امّہات المومنین کا جواب یہ حاشیہ کتاب کے صفحہ ۴۵۸ پرہے۔(ناشر