اورؔ طہارت اور محبت الٰہیہ سے وابستہ ہیں اور سگ دنیا کو مل نہیں سکتے۔ سو اس میں کچھ شک نہیں کہ قول موجّہ سے اتمام حجت کرنا انبیاء اور مردان خدا کا کام ہے اور حقانی فیوض کا مورد ہونا فانیوں کا طریق ہے۔ اور اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے 3۔۱ پس کیونکر ایک گندہ اورمنافق اور دنیا پرست ان آسمانی فیضوں کو پا سکتا ہے جن کے بغیر کوئی فتح نہیں ہو سکتی؟ اور کیونکر اس دل میں روح القدس بول سکتا ہے جس میں شیطان بولتا ہو؟ سو ہرگز امید نہ کرو کہ کسی کے بیان میں روحانیت اور برکت اور کشش اس حالت میں پیدا ہو سکے جبکہ خدا کے ساتھ اس کے صافی تعلق نہیں ہیں۔ مگر جو خدا میں فانی ہو کر خدا کی طرف سے تائید دین کے لئے کھڑا ہوتا ہے وہ اوپر سے ہر ایک دم فیض پاتا ہے اور اس کو غیب سے فہم عطا کیا جاتا ہے اور اس کے لبوں پر رحمت جاری کی جاتی ہے اور اس کے بیان میں حلاوت ڈالی جاتی ہے۔
چھٹی شرط علم تاریخ بھی ہے۔ کیونکہ بسا اوقات علم تاریخ سے دینی مباحث کو بہت کچھ مدد ملتی ہے۔ مثلاً ہمارے سیّد و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی ایسی پیشگوئیاں ہیں جن کا ذکر بخاری و مسلم وغیرہ کتب حدیث میں آ چکا ہے اور پھر وہ ان کتابوں کے شائع ہونے سے صدہا برس بعد وقوع میں آگئی ہیں۔ اور اس زمانہ کے تاریخ نویسوں نے اپنی کتابوں میں ان پیشگوئیوں کا پورا ہونا بیان کر دیا ہے۔ پس جو شخص اس تاریخی سلسلہ سے بے خبر ہوگا وہ کیونکر ایسی پیشگوئیاں جن کا خدا کی طرف سے ہونا ثابت ہو چکا ہے اپنی کتاب میں بیان کر سکتا ہے؟ یا مثلاً حضرت مسیح علیہ السلام کے وہ تاریخی واقعات جو یہودی مؤرخوں اور بعض عیسائیوں نے بھی ان کے اُس حصہِ زندگی کے متعلق لکھے ہیں جو نبوت کے ساڑھے تین برس سے پہلے تھے یا وہ واقعات اور تنازعات جو قدیم تاریخ نویسوں نے حضرت مسیح اور ان کے حقیقی بھائیوں کی نسبت تحریر کئے ہیں یا وہ انسانی ضعف اور کمزوریوں کے بیان جو تاریخوں میں حضرت مسیح کی زندگی کے دونوں حصوں کی نسبت بیان کئے گئے ہیں یہ تمام باتیں بغیر ذریعہ تاریخ کے کیونکر معلوم ہو سکتی ہیں؟ مسلمانوں میں ایسے لوگ بہت کم ہوں گے جن کو اس قدر بھی معلوم ہو