اسؔ کو لوگوں کی نظر میں بے اعتبار ٹھہراوے۔ اور بسااوقات ردّ لکھنے والے کو اپنے مخالف کی کتاب کی نسبت لکھنا پڑتا ہے کہ وہ زبان دانی کے رو سے کس پایہ کا آدمی ہے۔ غرض ایک مسلمان جو عیسائی حملوں کی مدافعت کے لئے میدان میں آتا ہے اس کو یاد رکھنا چاہئیے کہ ایک بڑا حربہ اور نہایت ضروری حربہ جو ہر وقت اس کے ہاتھ میں ہونا چاہئیے علم زبان عربی ہے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ ایسا شخص جو مخالفوں کے ردّ لکھنے پر اور ان کے حملوں کے دفع کرنے پر آمادہ ہوتا ہے اس کی دینی معرفت میں صرف یہی کافی نہیں کہ چند حدیث اور فقہ اور تفسیر کی کتابوں پر اس نے عبور کیا ہو اور محض الفاظ پر نظر ڈالنے سے مولوی کے نام سے موسوم ہو چکا ہو۔ بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ تحقیق اور تدقیق اور لطائف اور نکات اور براہین یقینیہ پیدا کرنے کا خداداد مادہ بھی اس میں موجود ہو اور فی الواقع حکیم الامت اور زکیّ النفس ہو۔ تیسری شرط یہ کہ کسی قدر علوم طبعی اور طبابت اور ہیئت اور جغرافیہ میں دسترس رکھتا ہو کیونکہ قانون قدرت کے نظائر پیش کرنے کے لئے یا اور بعض تائیدی ثبوتوں کے وقت ان علوم کی واقفیت ہونا ضروری ہے۔ چوتھی شرط یہ کہ عیسائیوں کے مقابل پر وہ ضروری حصہ بائبل کا جو پیشگوئیوں وغیرہ میں قابل ذکر ہوتا ہے عبرانی زبان میں یاد رکھتا ہو۔ ہاں یہ سچ ہے کہ ایک عربی دان علم زبان کے فاضل کے لئے اس قدر استعداد حاصل کرنا نہایت سہل ہے۔ کیونکہ میں نے عربی اور عبرانی کے بہت سے الفاظ کا مقابلہ کر کے ثابت کر لیا ہے کہ عبرانی کے چار حصے میں سے تین۳ حصے خالص عربی ہے جو اس میں مخلوط ہے۔ اور میری دانست میں عربی زبان کا ایک پورا فاضل تین ماہ میں عبرانی زبان میں ایک کافی استعداد حاصل کر سکتا ہے۔ یہ تمام امور کتاب منن الرحمن میں مَیں نے لکھے ہیں۔ جس میں ثابت کیا گیا ہے کہ عربی اُمّ الالسنہ ہے۔ پانچویں شرط خدا سے حقیقی ربط اور صدق اور وفا اور محبت الٰہیہ اور اخلاص اور طہارۃ باطنی اور اخلاق فاضلہ اور انقطاع الی اللہ ہے۔ کیونکہ علم دین آسمانی علوم میں سے ہے۔ اور یہ علوم تقویٰ