کا اقرار کیا تھا کہ کہاں تک انسان پہنچتا ہے آجؔ وہ بھی سوگئے۔ اے عقلمندو! میرے کاموں سے مجھے پہچانو اگر مجھ سے وہ کام اور وہ نشان ظاہر نہیں ہوتے جو خدا کے تائید یافتہ سے ظاہر ہونے چاہئیں تو تم مجھے مت قبول کرو لیکن اگر ظاہر ہوتے ہیں تو اپنے تئیں دانستہ ہلاکت کے گڑھے میں مت ڈالو۔ بدظنیاں چھوڑو۔ بدگمانیوں سے باز آجاؤ کہ ایک پاک کی توہین کی وجہ سے آسمان سرخ ہو رہا ہے* اور تم نہیں دیکھتے۔ اور فرشتوں کی آنکھوں سے خون ٹپک رہا ہے اور تمہیں نظر نہیں آتا۔ خدا اپنے جلال میں ہے اور در و دیوار لرزہ میں۔ کہاں ہے وہ عقل جو سمجھ سکتی ہے۔ کہاں ہیں وہ آنکھیں جو وقتوں کو پہچانتی ہیں۔ آسمان پر ایک حکم لکھا گیا۔ کیا تم اس سے ناراض ہو؟ کیا تم رب العزت سے پوچھو گے کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ اے نادان انسان! باز آ جا کہ صاعقہ کے سامنے کھڑا ہونا تیرے لئے اچھا نہیں!!!
اپنے ظلموں کو دیکھو اور اپنی شوخیوں پر غور کرو کہ خدا نے اول ایک نشان قائم کیا اور آتھم کو دو طور کی موت دی۔ اول یہ کہ وہ اخفائے حق اور دروغ گوئی کا ملزم ٹھہر کر اپنی صفائی کسی طور سے ثابت نہ کر سکا نہ نالش سے نہ قسم سے نہ کسی اور ثبوت سے۔ دوسرے یہ کہ خدا کے وعدہ کے موافق اخفاء پر اصرار کرنے کے بعد جلد فوت ہوگیا۔ اب بتلاؤ کہ اس پیشگوئی کی تصدیق میں تمہیں کیا مشکلات پیش آئیں؟ کیا آتھم نہیں ڈرتا رہا؟ کیا آخر وہ نہیں مرگیا؟ کیا پیشگوئی میں صاف اور صریح طور پر یہ شرط نہ تھی کہ حق کی طرف رجوع کرنے سے موت میں تاخیر ہوگی۔ پھر کیا تم میں سے کوئی قسم کھا سکتا ہے کہ آتھم پر قرائن عقلیہ کی رو سے یہ الزام قائم نہیں ہوا کہ اس نے اپنے اقوال اور افعال اور بیہودہ عذرات سے یہ ثابت کر دیا کہ وہ پیشگوئی کے بعد ضرور ڈرتا رہا اور وہ اس بات کا ثبوت نہیں دے سکا کہ کیوں اس ڈر کو جس کا اس کو خود اقرار تھا تعلیم یافتہ سانپ
نوٹ: ایک امام کے ظہور کے لئے جو آسمان و زمین گواہی دے رہے ہیں اس سے یہ مطلب نہیں کہ کوئی مہدی خونی یا مسیح غازی ظہور کرے گا۔ یہ تمام باتیں نا سمجھی کے خیال ہیں بلکہ ہم مامور ہیں کہ آسمانی نشانوں اور عقلی دلائل کے ساتھ منکروں کو شرمندہ کریں اور خوارق کے ساتھ ایمان کو دلوں میں اتاریں۔ منہ