پڑھاؔ کہ محدث بھی ایک مرسل ہوتا ہے۔ کیا قراء ت ولا محدّثکی یاد نہیں رہی۔ پھر یہ کیسی بیہودہ نکتہ چینی ہے کہ مرسل ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اے نادانوں! بھلا بتلاؤ کہ جو بھیجا گیا ہے اس کو عربی میں مرسل یا رسول ہی کہیں گے یا اور کچھ کہیں گے۔ مگر یاد رکھو کہ خدا کے الہام میں اس جگہ حقیقی معنی مراد نہیں جو صاحب شریعت سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ جو مامور کیا جاتا ہے وہ مرسل ہی ہوتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ وہ الہام جو خدا نے اپنے اس بندہ پر نازل فرمایا اس میں اس بندہ کی نسبت نبی اور رسول اور مرسل کے لفظ بکثرت موجود ہیں۔ سو یہ حقیقی معنوں پر محمول نہیں ہیں۔ و لکل ان یصطلح سو خدا کی اصطلاح ہے جو اس نے ایسے لفظ استعمال کئے۔ ہم اس بات کے قائل اور معترف ہیں کہ نبوت کے حقیقی معنوں کی رو سے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نہ کوئی نیا نبی آ سکتا ہے اور نہ پرانا۔ قرآن ایسے نبیوں کے ظہور سے مانع ہے مگر مجازی معنوں کی رو سے خدا کا اختیار ہے کہ کسی ملہم کو نبی کے لفظ سے یا مرسل کے لفظ سے یاد کرے۔ کیا تم نے وہ حدیثیں نہیں پڑھیں جن میں رَسُولُ رَسُولِ اللّٰہ آیا ہے۔ عرب کے لوگ تو اب تک انسان کے فرستادہ کو بھی رسول کہتے ہیں۔ پھر خدا کو کیوں یہ حرام ہوگیا کہ مرسل کا لفظ مجازی معنوں پر بھی استعمال کرے۔ کیا قرآن میں سے3۱؂ بھی یاد نہیں رہا۔ انصافاًدیکھو کیا یہی تکفیر کی بنا ہے۔ اگر خدا کے حضور میں پوچھے جاؤ تو بتاؤ کہ میرے کافر ٹھہرانے کیلئے تمہارے ہاتھ میں کونسی دلیل ہے۔ باربار کہتا ہوں کہ یہ الفاظ رسول اور مرسل اور نبی کے میرے الہام میں میری نسبت خدا تعالیٰ کی طرف سے بے شک ہیں لیکن اپنے حقیقی معنوں پر محمول نہیں ہیں۔ اور جیسے یہ محمول نہیں ایسے ہی وہ نبی کر کے پکارنا جو حدیثوں میں مسیح موعود کیلئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا۔ یہ وہ علم ہے جو خدا نے مجھے دیا ہے جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے۔ میرے پر یہی کھولا گیا ہے کہ حقیقی نبوت کے دروازے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد بکلی بند ہیں۔ اب نہ کوئی جدید نبی حقیقی معنوں کے رو سے آ سکتا ہے اور نہ کوئی قدیم نبی۔ مگر ہمارے ظالم مخالف ختم نبوت کے دروازوں کو پورے طور پر بند نہیں سمجھتے۔ بلکہ ان کے