تھیؔ ۔ کیونکہ جب تک توحید کی زندہ روح انسان کے دل میں قائم نہ ہو تب تک نجات نہیں ہوسکتی۔ یہودی مُردوں کی طرح تھے اور بباعث سخت دلی اور طرح طرح کی نافرمانیوں کے وہ زندہ روح ان میں سے نکل چکی تھی۔ ان کو خدا کے ساتھ کچھ بھی میلان باقی نہیں رہا تھا اور ان کی توریت بباعث نقصان تعلیم اور نیز بوجہ لفظی اور معنوی تحریفوں کے اس لائق نہیں رہی تھی جو کامل طور پر رہبر ہو سکے اس لئے خدا نے زندہ کلام تازہ بارش کی طرح اتارا اور اس زندہ کلام کی طرف ان کو بلایا تا وہ طرح طرح کے دھوکوں اور غلطیوں سے نجات پاکر حقیقی نجات کو حاصل کریں۔ سو قرآن کے نزول کی ضرورتوں میں سے ایک۱ یہ تھی کہ تا مُردہ طبع یہودیوں کو زندہ توحید سکھائے اور دوسر۲ے یہ کہ تا ان کی غلطیوں پر انکو متنبہ کرے۔ اور تیسر۳ے یہ کہ تا وہ مسائل کہ جو توریت میں محض اشارہ کی طرح بیان ہوئے تھے جیسا کہ مسئلہ حشر اجساد اور مسئلہ بقاء روح اور مسئلہ بہشت اور دوزخ ان کے مفصل حالات سے آگہی بخشے۔
یہ بات سچ ہے کہ سچائی کی تُخم ریزی توریت سے ہوئی اور انجیل سے اس تُخم نے ایک آئندہ بشارت دینے والے کی طرح منہ دکھلایا۔ اور جیسے ایک کھیت کا سبزہ پوری صحت اور عمدگی سے نکلتا ہے اور بزبان حال خوشخبری دیتا ہے کہ اس کے بعد اچھے پھل اور اچھے خوشے ظہور کرنیوالے ہیں ایسا ہی انجیل کامل شریعت اور کامل رہبر کے لئے خوشخبری کے طور پر آئی اور فرقان سے وہ تخم اپنے کمال کو پہنچا جو اپنے ساتھ اس کامل نعمت کو لایا جس نے حق اور باطل میں بکلّی فرق کر کے دکھلایا اور معارف دینیہ کو اپنے کمال تک پہنچایا جیسا کہ توریت* میں پہلے سے لکھا تھا کہ ’’خدا سینا سے آیا اور سعیر سے طلوع ہوا اور فاران کے پہاڑ سے ان پر چمکا‘‘۔!!!
یہ بات بالکل ثابت شدہ امر ہے کہ شریعت کے ہر ایک پہلو کو کمال کی صورت