ابؔ یہ بھی یاد رہے کہ قرآن کی تعلیم سے بے شک ثابت ہوتا ہے کہ یہود اور نصاریٰ سے لڑائیاں ہوئیں۔ مگر ان لڑائیوں کا ابتدا اہل اسلام کی طرف سے ہرگز نہیں ہوا اور یہ لڑائیاں دین میں جبرًا داخل کرنے کے لئے ہرگزنہیں تھیں بلکہ اس وقت ہوئیں جبکہ خود اسلام کے مخالفوں نے آپ ایذا دے کر یا موذیوں کو مدد دے کر ان لڑائیوں کے اسباب پیدا کئے۔ اور جب اسباب انہیں کی طرف سے پیدا ہوگئے تو غیرت الٰہی نے ان قوموں کو سزا دینا چاہا اور اس سزا میں بھی رحمت الٰہی نے یہ رعایت رکھی کہ اسلام میں داخل ہونے والا یا جزیہ دینے والا اس عذاب سے بچ جائے۔ یہ رعایت بھی خدا کے قانون قدرت کے مطابق تھی۔ کیونکہ ہر ایک مصیبت جو عذاب کے طور پر نازل ہوتی ہے مثلاً وبا یا قحط تو انسانوں کا کانشنس خود اس طرف متوجہ ہو جاتا ہے کہ وہ دعا اور توبہ اور تضرع اور صدقات اور خیرات سے اس عذاب کو موقوف کرانا چاہیں۔ چنانچہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ رحیم خدا عذاب کو دور کرنے کے لئے خود الہام دلوں میں ڈالتا ہے۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ کی دعائیں کئی دفعہ منظور ہوکر بنی اسرائیل کے سر سے عذاب ٹل گیا۔ غرض اسلام کی لڑائیاں سخت طبع مخالفوں پر ایک عذاب تھا جس میں ایک رحمت کا طریق بھی کھلا تھا۔ سو یہ خیال کرنا دھوکہ ہے کہ اسلام نے توحید کے شائع کرنے کے لئے لڑائیاں کیں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ لڑائیوں کی بنیاد محض سزا دہی کے طور پر اس وقت سے شروع ہوئی کہ جب دوسری قوموں نے ظلم اور مزاحمت پر کمر باندھی۔ رہا یہ سوال کہ یہودیوں کو مسلمان ہونے کی ضرورت کیا تھی وہ تو پہلے سے موَحّد تھے؟ اس کا جواب ہم ابھی دے چکے ہیں کہ توحید یہودیوں کے دلوں میں قائم نہ تھی صرف کتابوں میں تھی اور وہ بھی ناقص۔ سو توحید کی زندہ روح حاصل کرنے کی ضرورت