وا ؔ بستہ ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں ہر ایک شریک سے خواہ بت ہو خواہ انسان ہو خواہ سورج ہو یا چاند ہو یا اپنا نفس یا اپنی تدبیر اور مکر فریب ہو منزہ سمجھنا اور اس کے مقابل پر کوئی قادر تجویز نہ کرنا۔ کوئی رازق نہ ماننا کوئی مُعِزّاور مُذِلّ خیال نہ کرنا کوئی ناصر اور مددگار قرار نہ دینا اور دوسرے یہ کہ اپنی محبت اسی سے خاص کرنا۔ اپنی عبادت اسی سے خاص کرنا۔ اپنا تذلّل اسی سے خاص کرنا۔ اپنی امیدیں اسی سے خاص کرنا۔ اپنا خوف اسی سے خاص کرنا۔ پس کوئی توحید بغیر ان تین قسم کی تخصیص کے کامل نہیں ہو سکتی۔ اوّل ذات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ اس کے وجود کے مقابل پر تمام موجودات کو معدوم کی طرح سمجھنا اور تمام کو ہالکۃ الذات اور باطلۃ الحقیقت خیال کرنا۔ دوم صفات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ ربوبیّت اور الوہیّت کی صفات بجز ذات باری کسی میں قرار نہ دینا۔ اور جو بظاہر ربّ الانواع یا فیض رسان نظر آتے ہیں یہ اسی کے ہاتھ کا ایک نظام یقین کرنا۔ تیسرے۳ اپنی محبّت اور صدق اور صفا کے لحاظ سے توحید یعنی محبت وغیرہ شعار عبودیت میں دوسرے کو خداتعالیٰ کا شریک نہ گرداننا۔ اور اسی میں کھوئے جانا۔ سو اس توحید کو جو تینوں شعبوں پر مشتمل اور اصل مدار نجات ہے یہودی لوگ کھو بیٹھے تھے۔ چنانچہ ان کی بدچلنیاں اس بات پر صاف گواہی دیتی تھیں کہ ان کے لبوں میں خدا کے ماننے کا دعویٰ ہے مگر دل میں نہیں۔ جیسا کہ قرآن خود یہود و نصاریٰ کو ملزم کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر یہ لوگ توریت اور انجیل کو قائم کرتے تو آسمانی رزق بھی انہیں ملتا اور زمینی بھی۔ یعنی آسمانی خوارق عادت اور قبولیت دعا اور کشوف اور الہامات جو مومن کی نشانیاں ہیں ان میں پائی جاتیں جو آسمانی رزق ہے۔ اور زمینی رزق بھی ملتا مگر اب وہ آسمانی رزق سے بکلّی بے نصیب ہیں اور زمین کا رزق بھی روبحق ہو کر نہیں بلکہ روبہ دنیا ہو کر حاصل کرتے ہیں۔ سو دونوں رزقوں سے محروم ہیں۔