مشغوؔ ل ہونا اور اسکی محبّت میں کھوئے جانا۔ سو عملی طور پر یہ توحید ان میں باقی نہیں رہی تھی۔ اور خداتعالیٰ کی عظمت اور جلال ان کے دلوں پر سے اٹھ گئی تھی۔ وہ لبوں سے خدا خدا پکارتے تھے مگر دل ان کے شیطان کے پرستار ہوگئے تھے اور ان کے سینے دنیا پرستی اور دنیا طلبی اور مکر اور فریب میں حد سے زیادہ بڑھ گئے تھے۔ ان میں درویشوں اور راہبوں کی پوجا ہوتی تھی اور سخت قابل شرم بے حیائی کے کام ان میں ہوتے تھے۔ ریاکاریاں بڑھ گئی تھیں۔ مکّاریاں زیادہ ہوگئی تھیں۔ اور ظاہر ہے کہ توحید صرف اس بات کا نام نہیں کہ منہ سے لا الٰہ اِلَّا اللّٰہ کہیں اور دل میں ہزاروں بُت جمع ہوں۔ بلکہ جو شخص کسی اپنے کام اور مکر اور فریب اور تدبیر کو خدا کی سی عظمت دیتا ہے یا کسی انسان پر ایسا بھروسہ رکھتا ہے جو خداتعالیٰ پر رکھنا چاہئے یا اپنے نفس کو وہ عظمت دیتا ہے جو خدا کو دینی چاہئے ان سب صورتوں میں وہ خداتعالیٰ کے نزدیک بُت پرست ہے۔ بُت صرف وہی نہیں ہیں جو سونے یا چاندی یا پیتل یا پتھر وغیرہ سے بنائے جاتے اور ان پر بھروسہ کیا جاتا ہے بلکہ ہر ایک چیز یا قول یا فعل جس کو وہ عظمت دی جائے جو خداتعالیٰ کا حق ہے وہ خدا تعالیٰ کی نگہ میں بُت ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ توریت میں اس باریک بُتپرستی کی تصریح نہیں ہے مگر قرآن شریف ان تصریحات سے بھرا پڑا ہے۔ سو قرآن شریف کو نازل کر کے خداتعالیٰ کا ایک یہ بھی منشاء تھا کہ یہ بُت پرستی بھی جو دِق کی بیماری کی طرح لگی ہوئی تھی لوگوں کے دلوں سے دور کرے اور اس زمانہ میں یہودی اس قسم کی بُتپرستی میں غرق تھے اور توریت ان کو چھڑا نہیں سکتی تھی اس لئے کہ توریت میں یہ باریک تعلیم نہیں تھی۔ اور نیز اس لئے کہ یہ بیماری جو تمام یہودیوں میں پھیل گئی تھی ایک پاک توحید کے نمونہ کو چاہتی تھی جو زندہ طور پر ایک کامل انسان میں نمودار ہو۔
یاد رہے کہ حقیقی توحید جس کا اقرار خدا ہم سے چاہتا ہے اور جس کے اقرار سے نجات