نہیںؔ ۔ یسوع ناصری نے اپنا قدم قرآن کی تعلیم کے موافق رکھا اس لئے اس نے خدا سے انعام پایا۔ ایسا ہی جو شخص اس پاک تعلیم کو اپنا رہبر بنائے گا وہ بھی یسوع کی مانند ہو جائے گا۔ یہ پاک تعلیم ہزاروں کو عیسیٰ مسیح بنانے کیلئے طیّار ہے اور لاکھوں کو بنا چکی ہے۔ ہم نہایت نرمی اور ادب سے حضرات پادری صاحبوں کی خدمت میں سوال کرتے ہیں کہ اس بیچارہ ضعیف انسان کو خدا ٹھہرا کر آپ کی روحانیت کو کونسی ترقی ہوئی ہے۔ اگر وہ ترقی ثابت کرو تو ہم لینے کو طیّارہیں۔ ورنہ اے بدبخت مخلوق پرست لوگو! آؤ ہماری ترقیات دیکھو اور مسلمان ہو جاؤ۔ کیا یہ انصاف کی بات نہیں کہ جو شخص اپنی پاک زندگی اور پاک معرفت اور پاک محبّت پر آسمانی شہادت رکھتا ہے وہی سچا ہے۔ اور جس کے ہاتھ میں صرف قصّے اور کہانیاں ہیں وہ بدبخت جھوٹا اور نجاست خوار ہے۔ سوال۔ ۲۔ اگر اسلام کا مقصد توحید کی طرف آدمیوں کو رجوع کرنا ہے تو کیا وجہ ہے کہ آغاز اسلام میں یہودیوں کے ساتھ جن کی الہامی کتابیں توحید کے سوا اور کچھ نہیں سکھاتیں۔ جہاد کیا گیا؟ یا کیوں آجکل یہودیوں یا اور توحید کے ماننے والوں کی نجات کیلئے مسلمان ہونا ضروری سمجھا جائے۔ الجواب۔ واضح ہو کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت میں یہودی توریت کی ہدایتوں سے بہت دور جا پڑے تھے۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ ان کی کتابوں میں توحید باری تعالیٰ تھی مگر وہ اس توحید سے مُنْتَفِع نہیں ہوتے تھے۔ اور وہ علّت غائی جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا اور کتابیں نازل ہوئیں اس کو کھو بیٹھے تھے۔ حقیقی توحید یہ ہے کہ خدا کی ہستی کو مان کر اور اس کی وحدانیت کو قبول کر کے پھر اس کامل اور محسن خدا کی اطاعت اور رضا جوئی میں