تجھؔ سے انعام پایا اور جن پر آسمانی دروازے کھلے۔ واضح رہے کہ ہر ایک چیز کی وضع استقامت اس کی علّت غائی پر نظر کر کے سمجھی جاتی ہے۔ اور انسان کے وجود کی علت غائی یہ ہے کہ نوع انسان خدا کے لئے پیدا کی گئی ہے۔ پس انسانی وضع استقامت یہ ہے کہ جیسا کہ وہ اطاعت ابدی کے لئے پیدا کیا گیا ہے ایسا ہی درحقیقت خدا کے لئے ہو جائے۔ اور جب وہ اپنے تمام قویٰ سے خدا کے لئے ہو جائے گا تو بلاشبہ اس پر انعام نازل ہوگا جس کو دوسرے لفظوں میں پاک زندگی کہہ سکتے ہیں۔ جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ جب آفتاب کی طرف کی کھڑکی کھولی جائے تو آفتاب کی شعاعیں ضرور کھڑکی کے اندر آجاتی ہیں ایسا ہی جب انسان خدا تعالیٰ کی طرف بالکل سیدھا ہو جائے اور اس میں اور خدا تعالیٰ میں کچھ حجاب نہ رہے تب فی الفور ایک نورانی شعلہ اس پر نازل ہوتا ہے اور اُس کو منوّر کر دیتا ہے اور اس کی تمام اندرونی غلاظت دھو دیتا ہے۔ تب وہ ایک نیا انسان ہو جاتا ہے اور ایک بھاری تبدیلی اس کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ تب کہا جاتاہے کہ اس شخص کو پاک زندگی حاصل ہوئی۔ اس پاک زندگی کے پانے کا مقام یہی دنیا ہے۔ اسی کی طرف اللہ جلّ شانہٗ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے۔3۱؂ یعنی جو شخص اس جہان میں اندھا رہا اور خدا کے دیکھنے کا اسکو نور نہ ملا وہ اس جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا۔ غرض خدا کے دیکھنے کے لئے انسان اسی دنیا سے حواس لے جاتا ہے۔ جس کو اس دنیا میں یہ حواس حاصل نہیں ہوئے اور اس کا ایمان محض قصوں اور کہانیوں تک محدود رہا وہ ہمیشہ کی تاریکی میں پڑے گا۔ غرض خداتعالیٰ نے پاک زندگی اور حقیقی نجات کے حاصل کرنے کے لئے ہمیں یہی سکھلایا ہے کہ ہم بالکل خدا کے ہو جائیں اور سچی وفاداری کے ساتھ اسکے آستانہ پر گریں اور اس بدذاتی سے اپنے تئیں الگ رکھیں کہ مخلوق کو خدا کہنے لگیں اگرچہ مارے جائیں ٹکڑے ٹکڑے کئے جائیں۔ آگ میں جلائے جائیں اور خدا کی ہستی پر