اپنےؔ خون سے مہر لگائیں۔ اسی وجہ سے خدا نے ہمارے دین کا نام اسلام رکھا۔ تا یہ اشارہ ہو کہ ہم نے خدا کے آگے سر رکھ دیا ہے۔ اور قانون قدرت صاف شہادت دیتا ہے کہ جو قرآن نے پاکیزگی اور حقیقی نجات حاصل کرنے کا طریق سکھایا ہے یہی طریق جسمانی عالم میں بھی پایا جاتا ہے۔ ہم روز دیکھتے ہیں کہ تمام حیوانات اور نباتات میں بُری غذا کے ملنے اور اچھی غذا کے مفقود ہونے سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ اور قدرت نے طریق انسداد یہی رکھا ہے کہ خوراک کے لئے صالح چیزیں میسر کی جائیں اور ردّی کو بند کر دیا جائے۔ مثلاً درختوں کی طرف دیکھو کہ وہ تندرست رہنے کے لئے دو خصلت اپنے اندر رکھتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنی جڑوں کو زمین کے اندر دباتے چلے جاتے ہیں تا الگ رہ کر خشک نہ ہو جائیں۔ دوم یہ کہ وہ اپنی جڑوں کی نالیوں کے ذریعہ سے زمین کا پانی اپنی طرف کھینچتے ہیں اور اس طرح پر نشوونما کرتے ہیں سو یہی اصول قدرت نے انسان کے لئے رکھا ہے۔ یعنی وہ اسی حالت میں کامیاب ہوتا ہے کہ اول صدق و ثبات کے ساتھ خدا میں اپنے تئیں مستحکم کرتا ہے اور استغفار کے ساتھ اپنی جڑوں کو خدا کی محبت میں لگاتا ہے اور پھر قولی اور عملی توبہ کے ساتھ خدا کی طرف جھکنے کے ذریعہ سے اپنے انکسار اور تذلل کی نالیوں کے ساتھ ربّانی پانی اپنی طرف کھینچتا ہے اور اس طرح پر ایسا پانی کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے کہ گنہ کی خشکی کو دھو ڈالتا اور کمزوری کو دور کر دیتا ہے۔
اور استغفار جس کے ساتھ ایمان کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں قرآن شریف میں دو معنے پر آیا ہے۔ ایک تو یہ کہ اپنے دل کو خدا کی محبت میں محکم کر کے گناہوں کے ظہور کو جو علیحدگی کی حالت میں جوش مارتے ہیں خداتعالیٰ کے تعلق کے ساتھ روکنا اور خدا میں پیوست ہوکر اس سے مدد چاہنا یہ استغفار تو مقربوں کا ہے جو ایک طرفۃ العین خدا سے