اورؔ اس لائق ہوں گا کہ ہمیشہ کیلئے *** کے ساتھ ذکر کیا جاؤں اور اپنے مولیٰ کے فیصلہ کو فیصلہ ناطق سمجھوں گا۔ اور میری پیروی کرنے والا یا مجھے اچھا اور صادق سمجھنے والا خدا کے قہر کے نیچے ہوگا۔ پس اس صورت میں میر انجام نہایت ہی بد ہوگا جیسا کہ بدذات کاذبوں کا انجام ہوتا ہے۔ لیکن اگر خدا نے ایک سال تک مجھے موت اور آفات بدنی سے بچا لیا اور میرے مخالفوں پر قہر اور غضب الٰہی کے آثار ظاہر ہوگئے اور ہریک ان میں سے کسی نہ کسی بلا میں مبتلا ہوگیا۔ اور میری بددعا نہایت چمک کے ساتھ ظاہر ہوگئی تو دنیا پر حق ظاہر ہو جائے گا۔ اور یہ روز کا جھگڑا درمیان سے اٹھ جائے گا۔ میں دوبارہ کہتا ہوں کہ میں نے پہلے اس سے کبھی کلمہ گو کے حق میں بددعا نہیں کی اور صبر کرتا رہا۔ مگر اس روز خدا سے فیصلہ چاہوں گا۔ اور اس کی عصمت اور عزت کا دامن پکڑوں گا کہ تاہم میں سے فریق ظالم اور دروغگو کو تباہ کرکے اس دین متین کو شریروں کے فتنہ سے بچاوے۔ میں یہ بھی شرط کرتا ہوں کہ میری دعا کا اثر صرف اس صورت میں سمجھا جائے کہ جب تمام وہ لوگ جو مباہلہ کے میدان میں بالمقابل آویں ایک سال تک ان بلاؤں میں سے کسی بلا میں گرفتار ہوجائیں۔ اگر ایک بھی باقی رہا تو میں اپنے تئیں کاذب سمجھوں گا اگرچہ وہ ہزار ہوں یا دو ہزار اور پھر ان کے ہاتھ پر توبہ کروں گا۔ اور اگر میں مر گیا تو ایک خبیث کے مرنے سے دنیا میں ٹھنڈ اور آرام ہوجائے گا۔ میرے مباہلہ میں یہ شرط ہے کہ اشخاص مندرجہ ذیل میں سے کم سے کم دس۱۰ آدمی حاضر ہوں اس سے کم نہ ہوں اور جس قدر زیادہ ہوں میری خوشی اور مراد ہے کیونکہ بہتوں پر عذاب الٰہی کامحیط ہو جانا ایک ایسا کھلا کھلا نشان ہے جو کسی پر مشتبہ نہیں رہ سکتا۔ گواہ رہ اے زمین اور اے آسمان کہ خدا کی *** اس شخص پر کہ اس رسالہ کے پہنچنے کے بعد نہ مباہلہ میں حاضر ہو اور نہ تکفیر اور توہین کو چھوڑے اور نہ ٹھٹھا کرنے والوں کی مجلسوں سے الگ ہو۔ اور اے مومنو! برائے خدا تم سب کہو کہ آمین۔ مجھے افسوس سے یہ بھی لکھنا پڑا کہ آج تک ان ظالم مولویوں نے اس صاف اور سیدھے فیصلہ کی طرف رخ ہی نہیں کیا۔ تا اگر میں ان کے خیال میں کاذب تھا تو احکم الحاکمین کے حکم سے اپنی سزا کو پہنچ جاتا۔ ہاں بعض ان کے اپنی بدگوہری کی