تا ؔ میری ذلت ظاہر ہو اور لوگ میرے فتنہ سے بچ جائیں کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میرے سبب سے تیرے بندے فتنہ اور ضلالت میں پڑیں۔ اور ایسے مفتری کا مرنا ہی بہتر ہے۔ لیکن اے خدائے علیم و خبیر اگر تو جانتا ہے کہ یہ تمام الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں تیرے ہی الہام ہیں۔ اور تیرے منہ کی باتیں ہیں۔ تو ان مخالفوں کو جو اس وقت حاضر ہیں ایک سال کے عرصہ تک نہایت سخت دکھ کی مار میں مبتلا کر۔ کسی کو اندھا کردے اور کسی کو مجذوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یا سگ دیوانہ کا شکار بنا۔ اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر۔ اور جب میں یہ دعا کرچکوں تو دونوں فریق کہیں کہ آمین۔ ایسا ہی فریق ثانی کی جماعت میں سے ہریک شخص جو مباہلہ کیلئے حاضر ہو جناب الٰہی میں یہ دعا کرے کہ اے خدائے علیم و خبیر ہم اس شخص کو جس کا نام غلام احمد ہے درحقیقت کذاب اور مفتری اور کافر جانتے ہیں۔ پس اگر یہ شخص درحقیقت کذاب اور مفتری اور کافر اور بے دین ہے اور اس کے یہ الہام تیری طرف سے نہیں بلکہ اپنا ہی افترا ہے۔ تو اس امت مرحومہ پر یہ احسان کر کہ اس مفتری کو ایک سال کے اندر ہلاک کردے تالوگ اس کے فتنہ سے امن میں آجائیں۔ اور اگر یہ مفتری نہیں اور تیری طرف سے ہے اور یہ تمام الہام تیرے ہی منہ کی پاک باتیں ہیں تو ہم پر جو اس کو کافر اور کذاب سمجھتے ہیں۔ دکھ اور ذلت سے بھرا ہوا عذاب ایک برس کے اندر نازل کر اور کسی کو اندھا کر دے اور کسی کو مجذوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یا سگ دیوانہ کا شکار بنا اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر۔ اور جب یہ دعا فریق ثانی کرچکے تو دونوں فریق کہیں کہ آمین۔ اور یاد رہے کہ اگر کوئی شخص مجھے کذاب اور مفتری تو جانتا ہے مگر کافر کہنے سے پرہیز رکھتا ہے تو اس کو اختیار ہوگا کہ اپنے دعائی مباہلہ میں صرف کذاب اور مفتری کا لفظ استعمال کرے جس پر اس کو یقین دلی ہے۔
اور اس مباہلہ کے بعد اگر میں ایک سال کے اندر مر گیا یا کسی ایسے عذاب میں مبتلا ہوگیا جس میں جان بری کے آثار نہ پائے جائیں تو لوگ میرے فتنہ سے بچ جائیں گے اور میں ہمیشہ کی *** کے ساتھ ذکر کیا جاؤں گا اور میں ابھی لکھ دیتا ہوں کہ اس صورت میں مجھے کاذب اور مورد *** الٰہی یقین کرنا چاہئے اور پھر اس کے بعد میں دجّال یا ملعون یا شیطان کہنے سے ناراض نہیں