کذّاؔ ب اور مفتری سمجھا گیا۔ میں ان کے اشتہاروں میں *** کے ساتھ یاد کیا گیا۔ میں ان کی مجلسوں میں نفرین کے ساتھ پکارا گیا۔ میری تکفیر پر آپ لوگوں نے ایسی کمر باندھی کہ گویا آپ کو کچھ بھی شک میرے کفر میں نہیں۔ ہریک نے مجھے گالی دینا اجر عظیم کا موجب سمجھا اور میرے پر *** بھیجنا اسلام کا طریق قرار دیا۔ پر ان سب تلخیوں اور دکھوں کے وقت خدا میرے ساتھ تھا۔ ہاں وہی تھا جو ہریک وقت مجھ کو تسلی اور اطمینان دیتا رہا۔ کیا ایک کیڑا ایک جہان کے مقابل کھڑا ہوسکتا ہے۔ کیا ایک ذرہ تمام دنیا کا مقابلہ کرے گا۔ کیا ایک دروغ گو کی ناپاک روح یہ استقامت رکھتی ہے۔ کیا ایک ناچیز مفتری کو یہ طاقتیں حاصل ہوسکتی ہیں-
سو یقیناً سمجھو کہ تم مجھ سے نہیں بلکہ خدا سے لڑرہے ہو۔ کیا تم خوشبو اور بدبو میں فرق نہیں کرسکتے۔ کیا تم سچائی کی شوکت کو نہیں دیکھتے۔ بہتر تھا کہ تم خدا تعالیٰ کے سامنے روتے اور ایک ترساں اور ہراساں دل کے ساتھ اس سے میری نسبت ہدایت طلب کرتے اور پھر یقین کی پیروی کرتے نہ شک اور وہم کی-
سو اب اٹھو اور مباہلہ کیلئے تیار ہو جاؤ۔ تم سن چکے ہو کہ میرا دعویٰ دو ۲ باتوں پر مبنی تھا۔ اول نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ پر۔ دوسرے الہامات الٰہیہ پر۔ سو تم نے نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کو قبول نہ کیا اور خدا کی کلام کو یوں ٹال دیا جیسا کہ کوئی تنکا توڑ کر پھینک دے۔ اب میرے بناء دعویٰ کا دوسرا شق باقی رہا۔ سو میں اس ذات قادر غیور کی آپ کو قسم دیتا ہوں جس کی قسم کو کوئی ایماندار رد نہیں کرسکتا کہ اب اس دوسری بناء کی تصفیہ کیلئے مجھ سے مباہلہ کر لو۔
اور یوں ہوگا کہ تاریخ اور مقام مباہلہ کے مقرر ہونے کے بعد میں ان تمام الہامات کے پرچہ کو جو لکھ چکا ہوں اپنے ہاتھ میں لے کر میدان مباہلہ میں حاضر ہوں گااور دعا کروں گا کہ یا الٰہی اگر یہ الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں میر اہی افترا ہے اور تو جانتا ہے کہ میں نے ان کو اپنی طرف سے بنا لیا ہے یا اگر یہ شیطانی وساوس ہیں اور تیرے الہام نہیں تو آج کی تاریخ سے ایک برس گزرنے سے پہلے مجھے وفات دے۔ یا کسی ایسے عذاب میں مبتلا کر جو موت سے بدتر ہو اور اس سے رہائی عطا نہ کر جب تک کہ موت آجائے۔