تھی۔ اور اگر کسی پیشگوئی میں یہود کو خبر دی جاتی کہ ایک خدا بھی عورت کے پیٹ سے پیدا ہونے والا ہے تو پیشگوئی کے ایسے مفہوم سے جو نبیوں کی معرفت سبق کے طور پر ان کو ملا تھا ہرگز انکار نہ کرتے۔ ہاں یہ ممکن تھا کہ یہ عذر پیش کرتے کہ ایک خدا ایک عورت کے پیٹ میں سے نکلنے والا تو ضرور ہے مگر وہ خدا ابن مریم نہیں ہے بلکہ وہ کسی دوسرے وقت میں آئے گا۔ حالانکہ ایسے عقیدہ پر یہود ہزار *** بھیجتے ہیں۔
پس میں پوچھتا ہوں کہ جنگ مقدس میں آتھم نے ان باتوں کا کیا جواب دیا ہے۔ کیا یہود کی گواہی سے ثابت کیا کہ نبیوں سے یہی تعلیم ان کو ملی تھی یا نبیوں کی معرفت جو پیشگوئیوں کے معنے ان کو سمجھائے گئے تھے وہ یہی معنی ہیں۔ سچ ہے کہ آتھم اور اس کے ہم مشربوں نے بائیبل میں سے چند پیش گوئیاں پیش کی تھیں۔ مگر وہ ہرگز ثابت نہ کرسکے کہ یہود جو وارث توریت کے ہیں وہ یہی معنے کرتے ہیں۔ صرف تاویلات رکیکہ پیش کیں۔ مگر ظاہر ہے کہ صرف خود تراشیدہ تاویلات سے ایسا بڑا دعویٰ جو عقل اور نقل کے برخلاف ہے ثابت نہیں ہوسکتا۔
مثلاً یہ لکھنا کہ ’’عما نوایل نام رکھنا‘‘ یہ یسوع کے حق میں پیشگوئی ہے۔ حالانکہ یہود نے بڑی صفائی سے ثابت کردیا ہے کہ یسوع کی پیدائش سے مدّت پہلے یہ پیشگوئی ایک اور لڑکے کے حق میں پوری ہوچکی ہے۔
اور مثلاً یہ کہنا کہ الوہیم کا لفظ جو جمع ہے تثلیث پر دلالت کرتا ہے۔ حالانکہ یہود نے کھلے کھلے طور پر ثابت کردیا ہے کہ الوہیم کا لفظ توریت میں فرشتہ پر بھی بولا گیا ہے۔ اور ان کے نبی پر بھی اور بادشاہ پر بھی۔ اور لفظ الوہیم سے صرف تین۳ شخص ہی کیوں مراد لئے جاتے ہیں کیونکہ جمع کا صیغہ تین۳ سے زیادہ سینکڑوں ہزاروں پر بھی تو دلالت کرتا ہے۔ سو ان بے ہودہ تاویلات سے بجز اپنی پردہ دری کرانے کے اور کیا آتھم کے لئے نتیجہ نکلا تھا۔ مگر عیسائی بھی عجیب قوم ہے کہ اتنی ذلتیں اٹھا کر پھر بھی شرمندہ نہیں ہوتی۔
قولہ ۔ ’’قادیانی صاحب باضابطہ مباحثہ میں کامیاب نہ ہوئے تو انہوں نے آتھم صاحب کے مرنے