کیؔ پیشگوئی کی۔ مگر وہ بھی وقت متعینہ پر پوری نہ ہوئی۔‘‘ اقول۔ مباحثہ کا نمونہ تو میں نے کسی قدر ابھی بتلا دیا۔ اور پھر بھی انکار کرتے رہنا ان لوگوں کا کام ہے جو جھوٹ سے محبت رکھتے ہیں۔ اور رہا یہ کہ آتھم تاریخ مقررہ پر نہیں مرا بلکہ اس کے بعد مرا یہ عیسائیوں کی حماقت ہے جو ایسا سمجھتے ہیں۔ کیا پیشگوئی میں یہ شرط نہ تھی کہ آتھم اس حالت میں ہاویہ میں گرے گا کہ جب رجوع الی الحق نہ کرے*۔ اب ذرہ دل کو ٹھہرا کر اور آنکھوں کو کھول کر سوچو اور فکر کرو کہ کیونکر آتھم نے اپنے اقوال سے اپنے افعال سے اپنی مضطربانہ حرکات سے اپنے مفتریانہ دعاوی سے اس بات کو ثابت کردیا کہ درحقیقت پیشگوئی کی عظمت نے اس کے دل پر اثر کیا اور درحقیقت وہ پیشگوئی کے زمانہ میں نہ معمولی طور پر بلکہ بہت ہی ڈرا اور وہ خوف اس بات کے لئے بڑے زبردست دلائل ہمارے ہاتھ میں ہیں کہ آتھم کی یہ موت کوئی معمولی موت نہیں۔ آتھم کی عمر قریباً میرے برابر تھی۔ اور میں تو اکثر عوارض لاحقہ سے بیمار رہتا ہوں اور درد سر کی بیماری مجھے مدت تیس سال سے ہے۔ مگر آتھم ایک پرورش یافتہ بیل کی طرح موٹا تھا اور دن رات شراب پینے اور عمدہ غذائیں کھانے کے سوا اور کوئی کام نہیں تھا۔ سو اس کی موت درحقیقت انہیں پیشگوئیوں کا ظہور ہے کہ جو قطعی طور پر اس کے لئے کی گئی تھیں۔ اور علاوہ پیشگوئیوں کے جن کا اپنے وقت پر پورا ہونا ضروری تھا۔ یہ بھی انوار الاسلام اور دیگر اشتہارات میں بار بار لکھ چکے ہیں کہ یہ قدیم سے سنت اللہ ہے کہ جو شخص خوف کی حالت میں رجوع کرکے اور پھر امن پاکر برگشتہ ہوجائے خدا اس کو تھوڑی مہلت دیکر پھر پکڑ لیتا ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے۔ 3۱؂یعنی ہم رجوع کے بعد کچھ تھوڑی مدت عذاب کو موقوف رکھیں گے اور پھر پکڑ لیں گے اور تھوڑی مدت اس لئے کہ پھر تم انکار کی طرف رجوع کرو گے۔ سو ایسا ہی ہوا۔ یہ بات مسلمانوں کو بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ گو ایک شخص کا انجام خدائے تعالیٰ کے علم میں کفر ہو مگر عادت اللہ قدیم سے یہی ہے کہ اس کی تضرع اور خوف کے وقت عذاب کو دوسرے وقت پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ وعید میں خدا کے ارادہ عذاب کا تخلّف جائز ہے مگر بشارت میں جائز نہیں جیسا کہ قوم یونس کی وعید میں نزول عذاب کی قطعی تاریخ بغیر کسی شرط کے بتلا کر پھر اس قوم کی تضرّع پر وہ عذاب موقوف